Feb ۱۱, ۲۰۲۵ ۱۳:۵۹ Asia/Tehran
  • امریکی سینیٹر نے ٹرمپ کو آئینہ دکھا دیا

امریکی سینیٹر نے ٹرمپ کا منصوبہ مسترد کر دیا ہے

سحر نیوز/ دنیا: امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے غزہ میں فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔

سینیٹر برنی سینڈرز نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ 47 ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے، ایک لاکھ 10 ہزار زخمی ہیں، ٹرمپ کا جواب؟ غزہ کو مستقبل کے لیے رئیل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ بنانے کے لیے فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کیا جائے۔

انہوں نے لکھا کہ ’نہیں! غزہ کو فلسطینی عوام کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جانا چاہیے، نہ کہ ارب پتی سیاحوں کے لیے اسے ساحلی شہر بنائیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اردن اور مصر اگر فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول نہیں کرتے تو ان ممالک کی امداد بند کردی جائے گی۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اردن پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر رضامند ہوجائے گا۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ غزہ کے باہر فلسطینیوں کے لیے چھ مقامات ہوں گے، اور منصوبے کے تحت انہیں غزہ واپس آنے کا حق حاصل نہیں ہوگا کیونکہ انہیں اس سے بہتر قیام گاہ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اگر واپس آنا چاہیں بھی تو انہیں کئی سال لگ جائیں گے کیونکہ اس وقت غزہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے متنازع بیانات اور پالیسیوں کے باعث بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

ٹرمپ کی یہ پالیسیاں آج کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ ان کے پہلے دور اقتدار سے منسلک پالیسیوں کا تسلسل سمجھی جارہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ابراہم منصوبہ ہو یا غزہ کے مستقل مکینوں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے کا مجوزہ منصوبہ انہیں اسی تسلسل کی کڑی سے منسلک سمجھا جارہا ہے۔ اس سے قبل جنوری 2020 میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے “Peace to Prosperity” کے نام سے ایک منصوبہ پیش کیا تھا، جسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ بھی کہا گیا۔ یہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے ایک محدود خودمختاری والی ریاست کی تجویز دیتا تھا، جس کے بدلے میں اسرائیل کو مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں پر مکمل اختیار حاصل ہوتا۔ مزید برآں، اس منصوبے میں تل ابیب کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت قرار دیا گیا تھا اور فلسطینی عوام کو غزہ سے باہر دیگر علاقوں، بشمول اردن اور مصر، میں منتقل کرنے کے امکانات کا عندیہ دیا گیا تھا اور یہ معاملہ اس وقت بھی اتنا ہی متنازع تھا جتنا کہ آج۔

ٹرمپ کی غیر منطقی اور ناانصافی پر مبنی یہ تجویز نہ صرف فلسطینی عوام کی خواہشات کے خلاف بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔

ٹیگس