Mar ۰۹, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے کے تحفظ کی ضرورت پر اقوام متحدہ کی تاکید

ایٹمی معاہدہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان 14 جولائی 2015 کو طے پایا تھا- اس سمجھوتے پر 16 جنوری 2016 سے عملدرآمد شروع ہوا ۔

تاہم اس پر عملدرآمد کے ابتدائی دنوں سے ہی امریکہ نے ، ایٹمی معاہدے سے ایران کو اقتصادی فوائد سے محروم رکھنے کی کوششیں شروع کردیں- اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سراقتدار آنے کے بعد سے ان خلاف ورزیوں میں شدت آگئی- ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران متعدد بار ایٹمی معاہدے کو بدترین معاہدے کا نام دیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ وہ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے بعد اس معاہدےسے نکل جائیں گے- اور آخرکار آٹھ مئی 2018 کو، ٹرمپ یکطرفہ طور پر واشنگٹن کے تمام وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے نکل گئے اور ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں عائد کردیں-

سیاسی ماہر ریچرڈ سوکولسکی Richard Sokolsky  کے بقول، امریکی صدر نے ایران سے مقابلہ آرائی کے لئے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کا اعلان تو کردیا لیکن درواقع وہ حققیت پسندانہ اہداف اور واضح اسٹریٹیجی نہیں رکھتے-  ایٹمی معاہدے سے امریکہ کےنکل جانے کے باوجود اس سمجھوتے کے دیگر فریق اس کے باقی رہنے پر تاکید کر رہے ہیں-  ایٹمی معاہدے کے تعلق سے واشنگٹن کا مخالفت آمیز رویہ ، ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں یعنی روس، چین ، جرمنی ، فرانس ، برطانیہ اور یورپی یونین کو تسلیم نہیں ہے-

اقوام متحدہ نے بھی سب سے بڑے اور اہم ترین عالمی ادارے کی حیثیت سے کہ جس کے کاندھوں پر عالمی امن و سلامتی کی حفاظت کی بھی ذمہ داری ہے ، بارہا ایٹمی معاہدے کے حق میں اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے اور ایٹمی معاہدے کی حفاظت کی ضرورت پر تاکید کی ہے- اسی سلسلے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سربراہ ماریا فرنڈا اسپینوزا نے جمعہ آٹھ مارچ کو ایٹمی معاہدے کو ایک اجتماعی سمجھوتہ بتاتے ہوئے کہا کہ سب کو چاہئے کہ اس عالمی معاہدے کی پابندی کریں- ان کے بقول ان تمام فریق ملکوں کو جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں اس کا احترام اور اس کی حمایت کرنا چاہئے- اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سربراہ نے اسی طرح ایٹمی معاہدے کے بارے میں یورپی یونین کے رویے کو مثبت قرار دیا اور کہا کہ یورپی ممالک ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے خواہاں ہیں-

ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے نئے موقف کا اعلان ، اس معاہدے کے تعلق سے ایران کے نقطہ نظر پر ایک اور مہر تصدیق ہے- دنیا کے حکمرانوں اور عالمی اداروں کی جانب سے بیانات اور مواقف کے اعلان سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عالمی برادری، ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے یا اس معاہدے میں ٹرمپ کے مدنظر اصلاحات انجام پانے کے ان کے غیر منطقی اور توسیع پسندانہ رویے کی مخالف ہے- 

ٹرمپ نے 26 ستمبر 2018 کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس اجلاس کے تمام شرکا سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ تعاون کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بقول ایران ہرگز ایٹم بم تک دسترسی حاصل نہیں کرے گا- لیکن ٹرمپ کی توقع کے برخلاف سلامتی کونسل کے مسقتل اور غیر مستقل اراکین نے ایٹمی معاہدے کے تعلق سے امریکی موقف کے خلاف موقف اختیار کیا اور کم وبیش ان میں سے سبھی نے ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر تاکید کی-درحققیت ایران کے توسط سے ایٹمی معاہدے کی مسلسل پابندی کے باعث، کہ جس کے بارے میں بارہا جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے نے تصدیق بھی کی ہے، واشنگٹن کے یورپی اتحادیوں سے ہر قسم کی بہانے بازی کا امکان چھین لیا ہے اور اسی سبب سے یورپی ٹروئیکا یعنی جرمنی ، فرانس ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ملکوں نے کہ جو ایٹمی معاہدے کے تحفظ کو یورپ کی سلامتی سمجھتے ہیں ، اس بات کی کوشش کی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ خصوصی مالیاتی میکانزم  اور دیگر اقدامات کے ذریعے، ایٹمی معاہدے میں ایران کے باقی رہنے کا راستہ ہموار کریں-

اس طرح سے واشنگٹن کے یورپی اتحادیوں نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ  ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ٹرمپ کا رویہ ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے دائرے میں، امریکہ کی جانب سے تسلیم کئے گئے عہد و پیمان کے برخلاف نیز اس مسلمہ بین الاقوامی اصول کے برخلاف ہے کہ جس میں حکومتوں کی جانب سے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی ضرورت پر تاکید کی گئی ہے-

ٹیگس