Dec ۱۸, ۲۰۱۹ ۱۶:۴۹ Asia/Tehran
  • افغانستان میں امن و سلامتی کا قیام، تہران میں منعقدہ علاقائی سلامتی کانفرنس کا محور

آج بدھ کو تہران ، علاقائی سلامتی سے متعلق دوسرے بین الاقوامی اجلاس کا میزبان تھا- اس کانفرنس میں ایران، روس، چین ، ہندوستان، افغانستان، تاجیکستان اور ازبکستان کے قومی سلامتی کے مشیر اور اعلی سیکورٹی حکام نے شرکت کی-

یہ ایک روزہ اجلاس ، کہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی کی اعلی کونسل کی جدت عمل سے منعقد ہوا ، افغانستان کے حالات اور اس ملک میں دہشت گردی کی مختلف صورتوں سے ہمہ جانبہ مقابلے پر مرکوز تھا - ایران کی اعلی  قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے منگل کو چین کی قومی سلامتی کے مشیر "چین ون چینگ" کے ساتھ ملاقات میں کہ جنہوں نے علاقائی سلامتی پر منعقدہ دوسری کانفرنس میں شرکت کے لئے تہران کا دورہ کیا ہے، کہا کہ آج اجلاس کے ممبر ملکوں کی مشترکہ کوششوں سے علاقے میں امن و استحکام میں اضافے کے لئے تعمیری قدم اٹھایا جاسکتا ہے - لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علاقائی سلامتی علاقے کے ملکوں کی سرنوشت پر کن اثرات کی حامل ہے؟ کیا افغانستان میں بدامنی کے اثرات علاقے کے ملکوں کے لئے ایک چیلنج شمار کئے جا سکتے ہیں؟ 

افغانستان میں بدامنی کے علل و اسباب جاننے کے لئے اس ملک میں بدامنی کی جڑوں کو پہچاننا ضروری ہے- افغانستان گذشتہ چند عشروں سے مختلف جنگوں اور تنازعے میں گھرا ہوا ہے- افغانستان پر امریکہ کا حملہ اور اس ملک پر اسکا غاصبانہ قبضہ اور نیٹو افواج کی طویل المدت تک افغانستان میں موجودگی وہ جملہ عوامل ہیں کہ جن کے سبب افغانستان کی سرنوشت،  بحران اور بدامنی سے دوچار ہے- افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی کئی سال سے موجودگی اور غاصبانہ قبضہ ، اس ملک میں دہشت گردی کے فروغ پانے اور منشیات کی پیداوار میں کئی سو گنا اضافے کا سبب بنا ہے- اس ملک میں ایک ہمہ گیر حکومت کی تشکیل میں اختلافات ، قومی گروہوں کے درمیان رقابت، اور انتہاپسند گروہوں کا ظاہر ہونا وہ دیگر عوامل ہیں کہ جس نے اس ملک کی سیاسی و سیکورٹی کی صورتحال کو پیچیدہ اور افغانستان کو تنازعے کے ایک مرکز میں تبدیل کردیا ہے-

اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان میں امن و سلامتی کے بحال کئے جانے کی راہ حل کیا ہے؟ اس سلسلے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں

اول تو یہ کہ افغانستان علاقے میں سلامتی کا اہم ترین مرکز ہے- اس نقطۂ نگاہ رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ اگر علاقے میں بدامنی پائی جاتی ہے تو اس کی وجہ افغانستان میں جاری بدامنی ہے اس لئے علاقے کی سلامتی کے لئے افغانستان میں امن ضروری ہے-

اور دوسرا نقطۂ نظر یہ ہےکہ تمام بدامنیوں کا سرچشمہ افغانستان سے باہر ہے اور بدامنی کو اس ملک میں منتقل کیا جا رہا ہے - 

ظاہر سی بات ہے کہ افغانستان میں امریکی مداخلت نے اس ملک اور علاقے پر وسیع پیمانے پر بدامنی مسلط کی ہے- آج افغانستان کی صورتحال درحقیقت ماضی کی مداخلتوں کا نتیجہ ہے- لہذا افغانستان اور علاقے میں بدامنی، اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل سے متاثر ہے۔ 

اس بناپر افغانستان کے تعلق سے امن و سلامتی کے مذاکرات ،  اس ملک میں سیکورٹی ، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی مسائل پر مبنی ہونے چاہئے- بالفاظ دیگر افغانستان کے مسائل کا جائزہ ، محض فوجی نقطۂ نظر سے نہیں لیا جاسکتا- افغانستان کی مشکلات کے حل کا راستہ ، علاقائی و بین الاقوامی گنجائشوں اور قانونی جواز رکھنے والے سیاسی گروہوں کے درمیان مذاکرات کو تقویت دینا ہے- افغانستان میں امن مذاکرات کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی ، ایسے راہ حل پر تاکید ہے کہ جس کی بنیاد پر تمام افغان گروہ، صحیح و سالم اور عوامی ووٹوں پر مبنی عمل کے ذریعے اقتدار میں شریک ہوں-

محمد جواد ظریف نے حال ہی میں ترکی میں افغانستان سے متعلق منعقدہ "ہارٹ آف ایشیا استنبول عمل" کانفرنس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں یکجہتی اور اتحاد کے تحفظ پر زور دیا۔

جواد ظریف نے استنبول اجلاس میں کہا کہ ایران ، افغان حکومت کی مرکزیت میں طالبان سمیت تمام سیاسی گروہوں اور دھڑوں کی مشارکت سے ، افغان امن عمل کی حمایت کرتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ 2001 میں افغانستان سے متعلق بون کانفرنس کی کامیابیوں کی حفاظت کے لئے امن عمل کو آسان بنانے اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ افغانستان کے آئین کے دائرے میں،  ہمارے اختیار میں جو بھی وسیلہ ہے اس کے ذریعے سے ہر قسم کے سیاسی راہ حل تک رسائی کے لئے، اس سے مستحکم بنیاد کے طور پر استفادہ کریں- انہوں نے افغان رہنماوں سے درخواست کی کہ وہ  اپنے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغانستان میں یکجہتی اور اتحاد کے تحفظ سمیت ملک کے آئینی اصولوں کے عمل درآمد پر خصوصی توجہ دیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے ذمہ دار انخلا کیلئے ٹائم ٹیبل کے اعلان سے افغان حکومت کی جانب سے قومی سطح پر امن اور مفاہمت کےعمل کو قائم کرنے میں مناسب فضا کی فراہمی ہوجائے گی۔ محمد جواد ظریف نے افغانستان میں قیام امن کی فراہمی پر اقوام متحدہ کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ممالک کے خیالات کو مدنظر رکھنا اوران کے جائز خدشات پر توجہ دینا، امن معاہدے کی مضبوط علاقائی حمایت کا باعث بنے گا۔ انہوں نے داعش دہشتگرد گروپ کے خلاف ایک مضبوط اتحاد کی تشکیل اور اس گروہ کے خلاف جنگ کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ ایک مسلمہ امر ہےکہ علاقائی اجماع اور اتفاق رائے کے ذریعے ہی اس سلسلے میں اہم قدم اٹھائے جاسکتے ہیں۔ تہران میں علاقائی سلامتی مذاکرات کے دوسرے اجلاس کا انعقاد ، اس بارے میں فکری ہم آہنگی کے لئے ایک موقع ہے تاکہ افغانستان میں تمام گروہوں کے درمیان بات چیت اور باہمی افہام و تفہیم اور تعاون سے ایک پائیدار امن قائم ہوسکے-

ٹیگس