کیا ہندوستان، امریکا سے دشمنی مول لے رہا ہے؟
یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہی امریکی حکام اس کوشش میں مصروف ہیں کہ روس سے تیل کی برآمد کم ہو جائے تاکہ اس طرح روس کو سزا دی جا سکے۔
سحر نیوز/ ہندوستان: مگر ہندوستان کی ریفائنریاں اس کے بلکل برخلاف جہت میں عمل کر رہی ہیں۔ انہوں نے روس سے تیل درآمد کم کرنے کے بجائے بڑھا دیا ہے۔ در ایں اثنا ہندوستان کی حکومت اپنی کمپنیوں کو امریکی پاپبندیوں سے بچانے کے لئے کچھ راہ حل بھی تلاش کر رہی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکی پابندیوں کو ناکام بنانے کا عمل جاری ہے۔
ہندوستان نے مئی کے مہینے میں روس سے روزانہ 8 لاکھ 19 ہزار بیرل تیل خریدا جبکہ اس سے پہلے والے مہینے میں ہندوستان نے اس ملک سے 2 لاکھ 77 ہزار بیرل تیل خریدا تھا۔
اگر ایک سال پہلے کی بات کی جائے تو اسی مہینے میں ہندوستان نے روس سے صرف 33 ہزار بیرل تیل ہی خریدا تھا۔ روس نے اب تو تیل برآمد میں سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ہندوستان کے لئے دوسرا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والے ملک بن گیا ہے۔ ہندوستان کو سب سے زیادہ تیل برآمد اس وقت عراق کر رہا ہے۔
ہندوستان نے یوکرین جنگ کو روکنے کا مطالبہ تو کیا ہے تاہم اس نے روس کے حملے کی مذمت نہیں کی ہے۔ چین بھی ہندوستان جیسا ہی ہے جو روس سے بہت زیادہ تیل خرید رہا ہے اور روس کو تنہائی کا شکار بنانے کی مغربی ممالک کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
ہندوستانی حکام نہیں چاہتے کہ ایران کے بارے میں جو غلطی انہوں نے کی تھی اسے روس کے مسئلے میں دہرائیں۔ ہندوستان نے ایران پر عائد امریکی پابندیوں پر عمل کیا اور ایران سے تیل کی خریداری کم کر دی لیکن چین نے ان پابندیوں کا فائدہ اٹھایا اور اس نے ایران سے تیل خریدنا جاری رکھا جبکہ اس نے اپنی کمپنیوں کو امریکا کی پابندیوں اور جرمانے سے بھی محفوظ رکھا۔ اب ہندوستان اس منطق کے ساتھ کام کر رہا ہے کہ اگر چین، روس سے تیل خرید سکتا ہے تو ہندوستان کیوں نہیں خرید سکتا۔
ہندوستان کی حکومت مغرب اور واشنگنٹن سے اچھے تعلقات کو اہمیت دیتی ہے لیکن داخلی ضرورتیں سب سے پہلی ترجیح ہے اور ایسا لگتا ہے کہ توانائی کے مسئلے میں ہندوستان کو روس، امریکا سے بہتر پارٹنر نظر آ رہا ہے۔