Mar ۱۷, ۲۰۲۴ ۱۹:۰۵ Asia/Tehran
  • ہندوستان: ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام

ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام جشن ادب 2024 کے آخری دن اردو کے ممتاز نقاد، دانشور، محقق اور ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ کی حیات و خدمات پر مبنی یک روزہ قومی سمپوزیم کا انعقاد عمل میں آیا۔

سحرنیوز/ ہندوستان: میڈیا رپورٹوں کے مطابق دہلی میں منعقدہ سمپوزیم کے افتتاحی اجلاس میں مہمانِ خصوصی شاعر، نغمہ نگار، ہدایت کار، کہانی کار گلزار نے پروفیسر نارنگ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ابھی یقین نہیں ہورہا کہ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ اردو کی ہر محفل میں ہماری آنکھیں اُن کو تلاش کرتی رہتی ہیں۔

پروگرام کے آغاز میں اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی۔ ساتھ ہی انھوں نے نارنگ صاحب سے اپنے ذاتی تعلقات کے بارے میں کہا کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں اُس میں پروفیسر نارنگ کا بہت اہم رول ہے۔

تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے ساہتیہ اکادمی کے اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر چندربھان خیال نے پروفیسر نارنگ کی ادبی زندگی، اُن کی کتابوں اور انعامات و اعزازات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر نارنگ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور وہ اردو کے سفیر کہے جاتے تھے۔

اس خصوصی پروگرام میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اہلیہ محترمہ منورما نارنگ نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔

مہمانِ اعزازی اردو کے ممتاز نقاد و دانشور پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ اُن کا نارنگ صاحب سے تعلق پچاس برس سے زائد عرصے پر محیط ہے۔

ممتاز اردو نقاد و دانشور نظام صدیقی نے اپنا پُرمغز کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں جب نارنگ صاحب سے مصافحہ کرتا تو محسوس ہوتا تھا کہ ہندوستان کی روح سے مصافحہ کر رہا ہوں۔

اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ساہتیہ اکادمی کے صدر جناب مادھو کوشک نے کہا کہ جب کوئی ادیب ’اسکول آف تھاٹ‘ بن جائے تو وہ ایک ادارے کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ پروفیسر نارنگ کی حیثیت ہندوستانی ادب میں ایک ادارے کی ہے۔

افتتاحی اجلاس کے بعد پہلے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ پروفیسر نارنگ نے فکشن تنقید پر جو کام کیا ہے اس کا اثر تا دیر قائم رہے گا۔

اس سیشن میں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے اپنے مقالے میں کہا کہ ’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ پروفیسر نارنگ کی سب سے اہم کتاب ہے۔ اجلاس میں پروفیسر اسلم جمشیدپوری اور ڈاکٹر احمد صغیر نے پروفیسر نارنگ کی فکشن تنقید سے متعلق اپنے مقالے پیش کیے جبکہ ڈاکٹر دانش الٰہ آبادی نے پروفیسر نارنگ کی شخصیت پر بھرپور مقالہ پڑھا۔

دوسرے تکنیکی اجلاس کی صدارت شین کاف نظام نے کی اور کہا کہ ادب کا فلسفے کے حوالے سے فن سے رشتہ پہلی بار پروفیسر نارنگ نے تشکیل دیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر خالد محمود، ڈاکٹر اسد رضا، ڈاکٹر شاہینہ تبسم اور پروفیسر طارق چھتاری نے اپنے اپنے مقالے پیش کیے۔

آخری اجلاس کی صدارت شمیم طارق نے کی اور اس اجلاس میں حقانی القاسمی، ف س اعجاز، ڈاکٹر قاسم خورشید اور پروفیسر محمد زماں آزردہ نے اپنے مقالے پیش کیے۔

واضح رہے کہ ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام منعقدہ 6 روزہ جشن ادب میں، جو 11 سے 16 مارچ تک دہلی میں منعقد کیا گیا، 175 سے زائد زبانوں کے 1100  سے زیادہ ادیبوں نے شرکت کی جو اپنے آپ میں ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

ٹیگس