یورپی ممالک ایران دشمن طاقتوں کے جرم میں شریک نہ ہوں: ایران
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کو چاہئے کہ ایٹمی معاہدے کے دشمنوں کو اس بات کی اجازت نہ دے کہ وہ ایران کے اعلی مفادات کو خطرے سے دوچار کریں اور تین یورپی ملکوں یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی ان کے جرم میں شریک ہونے سے باز رہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ تہران کے پاس چھپانے کے لئے کچھ نہیں ہے اور گذشتہ پانچ برسوں کے دوران انجام پانے والے معائنے ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی تاریخ میں اب تک کے سب سے زیادہ اور ریکارڈ معائنے رہے ہیں- انہوں نے کہا کہ سمجھوتے کی بنیاد پر راہ حل کا حصول ممکن ہے لیکن آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز میں ایران مخالف قرارداد سے یہ سارے امکانات ختم ہو جائیں گے۔
تینوں یورپی ملکوں نے کہ جنہوں نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے پر دستخط بھی کئے ہیں، ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز میں پیش کرنے کے لئے ایک قرارداد کا مسودہ تیار کیا ہے۔ اس قرارداد میں ایران سے آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایران نے یورپی ملکوں کے اس اقدام پر کڑی تنقید کی ہے اور صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی اس قسم کی درخواست امریکی دباؤ اور غاصب صیہونی حکومت کے دعوے کی بنیاد پر کی جا رہی ہے جبکہ امریکہ، بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے مکمل طور پر علیحدہ ہوجانے کے باوجود ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی ہتھیاروں سے متعلق ان پابندیوں کی مدت میں توسیع کی کوشش کر رہا ہے جو ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر اور سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے مطابق آئندہ اکتوبر میں ختم ہونے والی ہیں۔
امریکہ کی ایران مخالف کوششوں میں تینوں یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی ساتھ دے رہے ہیں اور وہ بھی اب یہی چاہتے ہیں کہ ایران کے خلاف اسلحے کی پابندی باقی رکھی جائے، یہی وجہ ہے کہ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کی قرارداد میں ایران سے انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس عالمی ادارے کی درخواستوں کو پورا کرے۔
ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے اپنی حالیہ ایک رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ ایران اپنے دو جوہری ری ایکٹروں کے معائنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ ان دونوں ری ایکٹروں کے بارے میں یہ دعوی ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ ان دونوں ری ایکٹروں کے بارے میں جن اطلاعات کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ غاصب صیہونی حکومت کی فراہم کردہ ہیں اور اُن کا منطق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
چنانچہ اس نکتے کو ہرگز فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ امریکہ کے ساتھ تعاون میں تینوں یورپی ممالک کے کسی بھی قسم کے تخریبی اقدام سے سب سے پہلے تو سفارتی دروازے بند ہو جائیں گے اور ان یورپی ملکوں کی زور و زبردستی والی سفارتکاری سے ایران کی آہنی استقامت ہرگز کمزور نہیں پڑنے والی۔
جیسا کہ خود ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ سفارتکاری کے ذریعے سمجھوتے کی بنیاد پر راہ حل کا حصول ممکن ہے تاہم آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے قرارداد پاس کئے جانے سے اس راہ حل کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔