امریکہ نے سلامتی کونسل میں ایران مخالف قرارداد کا مسودہ پیش کر دیا
امریکہ نے ایران سے دشمنی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تہران کے خلاف اسلحے کی پابندی جاری رکھوانے کی غرض سے ایران مخالف قرارداد کا مسودہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ملکوں کو پیش کر دیا۔
اس قرارداد کے مسودے کے مطابق جسے امریکہ نے پیر کی شام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر اراکین کے سامنے پیش کیا ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی غیر معینہ مدت تک بڑھائے جانے کی بات کہی گئی ہے۔
اس بات کے پیش نظر کہ دو ہزار پندرہ کے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی اسلحے سے متعلق پابندیاں اکتوبر دو ہزار بیس میں ختم ہو رہی ہیں، امریکہ ایران کے ساتھ ہرقسم کے فوجی سودے پر پابندی لگوانے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ نے ایران کے مخالف قرارداد کا مسودہ ایسی حالت میں پیش کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دو مستقل رکن ملکوں، روس اور چین نے پہلے ہی اعلان کر رکھا ہے کہ وہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ علیحدگی کی بنا پر ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کی مدت میں توسیع کی حمایت نہیں کریں گے۔
دوسری جانب امریکہ نے دھمکی دی ہے کہ اس کی قرارداد کو اگر منظوری نہیں دی گئی تو وہ دو ہزار پندرہ کے سمجھوتے کی فوری پابندیوں کی بحالی کی شق سے استفادہ کرے گا جس میں ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی دوبارہ پابندیوں کی بحالی کی بات کہی گئی ہے۔
اسی اثنا میں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ یا ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کا ہرگز کوئی حق نہیں رکھتا۔
دریں اثنا روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ ایٹمی معاہدے کی پابندی کے بارے میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا دعوی آئی اے ای اے میں ایران کے جوہری پروگرام کی صورت حال کو کشیدہ بنانے اور ایٹمی معاہدے میں شامل پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کی شق پر عمل سے متعلق اقدامات سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔
روس کی وزارت خارجہ نے اس بیان میں اعلان کیا ہے کہ جوہری معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد کئے جانے کی راہ میں پائی جانے والی تمام مشکلات اور مسائل کی وجہ امریکہ کی جانب سے اس بین الاقوامی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی کا اعلان ہے اور وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی مسلسل خلاف ورزی کرتا آیا ہے۔
یاد رہے کہ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز نے گذشتہ جمعے کو برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے دباؤ میں ایران کے خلاف ایک سیاسی قرارداد پاس کی ہے۔ان تینوں یورپی ملکوں نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران پر ایسی حالت میں کہ وہ اپنے فرائض سے بھی کہیں بڑھکر ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرتا آیا ہے، آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
ایران نے آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ کو بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ طور پر علیحدگی کے اعلان کے بعد اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس معاہدے کے دیگر فریق بھی اس معاہدے کی مکمل پابندی کریں مگر یورپی ملکوں نے اس معاہدے کی حفاظت کے لئے اپنے وعدوں پر اب تک عمل کرنے کے لئے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا ہے۔