اسرائیل کی کاسہ لیسی میں اپنی ساکھ نہ برباد کرو، ایران کی یو ایس اور یو کے کو نصیحت
ایران نے امریکہ اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ سے کہا ہے کہ وہ واشنگٹن اور لندن کی ساکھ مزید برباد کرنے کے بجائے ایٹمی معاہدے کی بحالی پر توجہ مرکوز کریں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ ایٹمی معاہدے کے کٹر دشمن کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے ویانا مذاکرات میں تحریف کر رہے ہیں جو انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ بات انہوں نے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلینکن اور برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب کے دورہ مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہی۔
سعید خطیب زادے کا کہنا تھا کہ خونخوار صیہونی حکومت نے ایٹمی معاہدے کو نابود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے اور آپ حضرات اسی کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے ٹوئٹ کے آخر میں اینٹونی بلنکن اور ڈومنک راب کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اپنی ساکھ برباد کرنے کے بجائے اصل معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ صرف یہی آپشن میز پر ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے صیہونی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں حسب عادت ایران کے خلاف ہرزہ سرائی اور زہرافشانی کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے دورۂ مقبوضہ فلسطین کے موقع پر جہاں ایران کے خلاف واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان اتحاد کو مضبوط بنانے کی بات کہی وہیں ایٹمی معاہدے کی بحالی کی گیند ایران کے پالے میں پھینکتے ہوئے، تہران کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرانے کی بھی کوشش کی۔
دوسری جانب برطانوی وزیر خارجہ نے بھی گزشتہ بدھ کو اپنے دورہ مقبوضہ فلسطین کے موقع پر صیہونی وزیر خارجہ گیبی اشکنازی سے ملاقات میں ایران کے ساتھ سخت ترین ایٹمی معاہدے کا مطالبہ کیا ہے۔ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکی حکام کے ناجائز مطالبات کے درمیان اس ملک محکمۂ خزانہ نے دعوی کیا کہ اگر ایران ایٹمی معاہدے میں واپس آ جائے تو واشنگٹن تہران کے خلاف عائد پابندیوں پر نظر ثانی کے لیے تیار ہے۔
امریکی وزیر خزانہ جنٹ یلن نے ایوان نمائندگان کی بجٹ کمیٹی کے اجلاس میں بیان دیتے ہوئے، ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ انتظامیہ کی یک طرفہ اور غیر قانونی علیحدگی کا کوئی ذکر کیے بغیر دعوی کیا کہ ایران کی ایٹمی معاہدے میں واپسی کی صورت میں، پابندیوں کا بغور جائزہ لیا جائے گا اور پابندیوں کے خاتمے سے پہلے ایران کے اقدامات کا اطمینان حاصل کیا جائے گا۔
موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی کمپین کے دوران، ایٹمی معاہدے میں واپسی اور ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیوں کے خاتمے کی بات کہی تھی لیکن وائٹ ہاوس میں پہنچتے ہی انہوں نے پینترے بدل کر اس حوالے سے کسی بھی اقدام کو ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے میں واپسی سے مشروط کر دیا۔ ایران سے ایٹمی معاہدے میں واپسی کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں کیا جارہا ہے کہ ساری دنیا کو یہ علم ہے یہ امریکہ ہی تھا جس نے دوہزار اٹھارہ میں اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
اسلامی جمہوریہ ایران بارہا واضح کرچکا ہے کہ تہران ایٹمی معاہدے میں واپسی کی جانب کوئی بھی قدم امریکی پابندیوں کے خاتمے کا پورا اطمینان حاصل ہونے کے بعد ہی اٹھائے گا کیونکہ یہ واشنگٹن تھا جس نے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی اور تہران نے اس کے بعد ایٹمی معاہدے کو یکدم نہیں بلکہ بتدریج معطل کیا تھا۔
تہران یہ بھی واضح کرچکا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے میں امریکا کی واپسی کے لیے کسی بھی نئی شرط یا مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گا۔