آیت اللہ شہید بہشتی اور ان کے 72 ساتھیوں کی شہادت کی برسی
ہر قوم کی تاریخ میں ایسے تلخ و شیرین نشیب و فراز آتے ہیں جو اس قوم کی تقدیر کا تعین کرتے اور اس کی ثقافت کو وجود میں لاتے ہیں ۔
ایران میں اسلامی جمہوری نظام بھی ہماری تاریخ کا ایک بڑا حصہ ہے جو اپنے اندر بہت سی تلخ و شیرین یادیں لئے ہوئے ہے۔ یہ نظام ایک ایسی شخصیت کی قیادت میں قائم ہوا جس کی مثال کم ہی اس دنیا میں نظر آتی ہے اور اس نظام کے قیام کے لئے اس سرزمین کے فداکار سپوتوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔
سات تیر سنہ تیرہ سو ساٹھ ہجری شمسی مطابق اٹھائیس جون سنہ انیس سو اکیاسی کو اتوار کی رات آٹھ بج کر تیس منٹ پر تہران کے محلے سرچشمہ میں واقع حزب جمہوری اسلامی ایران کے ہیڈکوارٹر کے کانفرنس ہال میں آئندہ صدارتی انتخابات اور افراط زر کے موضوع پر بحث ہو رہی تھی ۔
قرآن کریم کی تلاوت کے بعد اجلاس کے ایجنڈے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سید محمد حسینی بہشتی نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔ ہمیں دوبارہ سامراجیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ اپنے پٹھو میدان میں لے آئیں اور ہمارے عوام کی تقدیر کے ساتھ کھلواڑ کریں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئےکہ مکتب کی پابندی کرنے اور عوام کی تقدیر کے ساتھ کھلواڑ نہ کرنے والے منتخب ہوں...
اسی دوران ہال میں زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے بعد تہران کے سیکڑوں لوگ پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے اطراف میں واقع سڑکوں پر اکٹھے ہوگئے۔ ایمبولینسیں آنے جانے لگیں۔ حزب جمہوری اسلامی کی کنکریٹ سے بنی ہوئی چھت دھماکے کے نتیجے میں دھڑام سے نیچے آگری اور دسیوں افراد ملبے تلے دب گئے۔ ایمبولینسیں جن زخمیوں اور شہدا کو لے جا رہی تھیں وہ خون میں لت پت تھے اور ان کی شناخت ممکن نہیں تھی۔ یہ دھماکہ بنی صدر کو صدارت کے عہدے سے معزول کئے جانے کے چھ دن بعد ہوا۔
روزنامہ کیہان نے اگلے دن اپنی رپورٹ میں لکھا کہ گزشتہ شب تقریبا نو بجے حزب جمہوری اسلامی کے ہیڈکوارٹر میں دو زوردار بم دھماکے ہوئے جن کے نتیجے میں حزب جمہوری اسلامی کی عمارت کے بعض حصے زمین بوس ہوگئے اور دسیوں حکومتی عہدیدار اور اراکین پارلیمنٹ اور متعدد وزرا شہید ہوگئے۔
دھماکے کے بعد ڈاکٹر بہشتی کے بارے میں کسی کو کوئی اطلاع نہیں تھی۔ بعض افراد اس امید کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کا نام شہدا میں نہیں ہوگا لیکن آٹھ تیر مطابق انتیس جون کو خبر ملی کہ وہ بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہیں۔
حزب جمہوری اسلامی کے ہیڈکوارٹر میں دھماکوں کے فورا بعد بہت سے لوگ زخمیوں کو اپنا خون دینے کے لئے تہران کے خیابان ویلا پر جمع ہوگئے۔ روزنامہ اطلاعات نے اس بارے میں لکھا کہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ زخمیوں کو او نیگیٹو خون کی شدید ضرورت ہے۔ اٹھائیس اور انتیس جون کی درمیانی رات تقریبا ڈھائی بجے اس بات کا پتہ چل چکا تھا کہ بموں کو پارٹی کے ہیڈکوارٹر کے بڑے ہال کے قریب کوڑے دانوں میں نصب کیا گیا تھا۔
یہ دھماکے منافقین کے دہشت گرد گروہ ایم کے او کے جرائم کا ایک حصہ تھے ۔وہی گروہ جسے آج مغربی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے اور انکی فراہم کردہ مالی امداد کے سہارے آج بھی یہ گروہ اپنے نحس وجود کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ انسانی حقوق اور دہشتگردی سے مقابلے کے سماع خراش نعرے لگانے والے مغربی ممالک کے دامن میں پروان چڑھتا یہ دہشتگرد گروہ آج بھی اپنے آقاؤں کے ساتھ مل کر اسلامی نظام کی سرنگونی کا خواب دیکھا کرتا ہے تاہم ایران کے عوام مسلسل اُسی آہنی جذبے کے ساتھ آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے اسلامی و انقلابی اہداف و مقاصد سے ہرگز پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔