ایرانی تیل کی خرید و فروخت سے امریکی صدر کو تکلیف ہونے لگی
امریکی صدر بائیڈن نے ایران کے خلاف واشنگٹن کی یکطرفہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ عالمی منڈی میں کافی مقدار میں تیل موجود ہے اور ایران سے تیل اور پیٹرولیئم مصنوعات کی خریداری کم کرنے کے حالات فراہم ہیں۔
ایک طرف امریکی صدر جو بائیڈن اس بات کے دعویدار ہیں کہ ان کا ملک، ایٹمی سمجھوتے میں واپس آنے کے لئے تیار ہے لیکن دوسری طرف وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ماحول تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
جوبائڈن نے امریکی وزارت خارجہ کے لئے ہدایات جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ عالمی منڈیوں میں کافی مقدار میں تیل فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ دیگر ممالک ایران سے تیل کی خریداری کم کریں۔ اس رپورٹ کے مطابق بائیڈن نے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس اس بات کا پابند ہے کہ وہ باراک اوباما کے دور صدارت میں دوہزار بارہ سے ایران کے خلاف عائد پابندیوں کو برقرار رکھنے کے لئے ہر چھے مہینے میں ایک بار تصدیق کرے کہ عالمی منڈیوں میں کافی مقدار میں تیل موجود ہے۔
گذشتہ ہفتے امریکی صدر نے ایران کے سلسلے میں قومی ہنگامی حالت کی مدت میں بھی مزید ایک سال کی توسیع کی تھی۔ ایسی حالت میں جب ایران کے خلاف امریکہ کی غیرقانونی پابندیاں اٹھائے جانے کے لئے انتیس نومبر سے ویانا میں مذاکرات ہونے والے ہیں، بائیڈن حکومت نے حالیہ ہفتوں میں اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کے لئے نہ صرف کوئی واضح قدم نہیں اٹھایا، بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اقدامات انجام دیئے ہیں۔
درایں اثنا اقوام متحدہ میں امریکی مندوب لینڈا تھومس گرینفیلڈ نے ایک پریس کانفرنس میں ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے یکطرفہ طور پر نکلنے کی جانب کوئی اشارہ کئے بغیر کہا کہ امریکی حکومت کو ایران کے ایٹمی پروگرام پر تشویش ہے۔
یاد رہے کہ مئی دو ہزار اٹھارہ میں امریکہ یکطرفہ طور پر ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل گـیا تھا اور ایران کے خلاف ماضی کی پابندیاں بحال کرتے ہوئے مزید نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کے بعد ایک سال تک ایٹمی سمجھوتے پرعمل کیا لیکن چونکہ معاہدے میں شامل یورپی ممالک معاہدے کو عملی جامہ پہنانے اور اپنے وعدوں پر عمل کرنے سے گریزاں رہے، اس لئے ایران نے بھی مئی دو ہزار انیس سے پانچ مرحلوں میں اس سمجھوتے پر عمل درآمد میں کمی لانا شروع کردی۔
امریکہ کی غیر قانونی پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی سمجھوتے میں امریکا کی واپسی کے لئے اس سمجھوتے میں شامل باقی ممالک کی شرکت سے ویانا میں اب تک چھے دور کے مذاکرات انجام پا چکے ہیں۔