مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے ایران کی تجویز
ویانا مذاکرات بائیڈن انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تعطل سے دوچار ہیں ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ علی باقری کنی نے اپنے ٹوئٹر پیج میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر دوسرا فریق بھی تیار ہو تو ہم مذاکرات کو کسی نتیجے تک پہنچانے کیلئے تیار ہیں اور ہمارے پاس اس کیلئے تجاویز بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یورپی کوآرڈینیٹر نے مذاکرات کو کسی نتیجے تک پہنچانے کیلئے تجاویز پیش کیں اور ہم بھی مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے تجاویز دے سکتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو جو چیز ایک پائیدار معاہدے کو حتمی شکل دے دسکتی ہے وہ پابندیوں کا مکمل خاتمہ اور ایران کے مفادات کی ضمانت ہے۔ اسی بنیاد پر ایران نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مذاکرات میں تجاویز بھی پیش کی ہیں اور اقدامات بھی انجام دیے ہیں۔
پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا آٹھواں دور ستائیس دسمبر دو ہزار اکیس کو شروع ہوا اور مارچ دوہزار بائیس میں جوزپ بورل کی تجویز پر اس میں وقفہ دیا گیا تاکہ مذاکرات کار وفود ضروری صلاح و مشورے کے لیے اپنے اپنے دارالحکومتوں کو لوٹ سکیں۔
اس وقت سے اب تک امریکہ کی جانب سے ایران اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں اپنے غیر قانونی اقدامات کے ازالے کے لیے لازمی فیصلوں میں لیت و لعل سے کام لینے کے سبب، مذاکرات تقریبا تعطل کا شکار چلے آ رہے ہیں۔
درحقیقت ویانا مذاکرات صرف اس وجہ سے معطل ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ، ٹرامپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی مخالفت کے باوجود نہ تو اسے تبدیل کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی ایران مخالف پابندیوں کے خاتمے کی ضمانت دینے پر آمادہ ہے، جو ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی دوبارہ رکنیت کی اہم ترین شرط ہے۔