امریکی ایندھن بردار اور جنگی طیارے خلیج فارس پہنچے
ایرانی بحریہ کی نقل و حرکت میں شدت، خلیج فارس میں کچھ بڑا ہونے والا ہے؟
خلیج فارس میں حالیہ واقعات کو معمولی واقعات نہيں سمجھنا چاہیے بلکہ تبدیلیوں بڑے پیمانے پر حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتی ہيں جس کے پیچھے علاقائی و عالمی طاقتیں کار فرما ہيں۔
سحرنیوز/ایران: امریکی ایندھن فراہم کرنے والے جہازوں کا خلیج فارس میں تعیناتی کا مقصد، جن کے ساتھ امریکی جنگی طیارے بھی بھیجے گئے ہيں ، مسلسل فضائی آپریشنز کے لیے اپنی لاجسٹک صلاحیت کے مظاہرے کے علاوہ دوفریقوں کو ایک سیاسی پیغام دینا بھی ہے: پہلا پیغام خطہ میں امریکہ کے اتحادیوں کے لیے ہے کہ واشنگٹن ان کی سلامتی کا ضامن بننے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دوسرا تہران کے لیے ہے کہ امریکہ کے سامنے فوجی آپشن اب بھی موجود ہے۔
در ایں اثنا میجر جنرل موسوی کے بیانات اور اسٹریٹجک اہمیت کے خلیج فارس کے علاقے میں آرمی اور سپاہ پاسداران کی بحری صلاحیتوں کے جائزے کے لئے ان کے دورے، انہی پیغامات پر ایران کے رد عمل کی عکاسی ہیں۔ ایران نے ہمیشہ خلیج فارس اور یہاں ریشہ دوانی کرنے والی طاقتوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے اور وہ یہ کہ "ہمارے پاس بھی کسی بھی مہم جوئی کا جواب دینے اور اسے اس کے ذمہ داروں کے لئے نقصان دہ بنانے کی صلاحیت ہے۔"
ایرانی وزیر خارجہ نے سی این این کے ساتھ انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ " ہم منصفانہ، متوازن اور تعمیری تجاویز کے ساتھ نیویارک آئے تھے... لیکن ان تجاویز کو بھی امریکہ اور تین یورپی ممالک نے مسترد کر دیا" اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ "ہم ہمیشہ بات چیت اور سفارتی حل کے لیے تیار ہیں" ۔

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا یہ بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ تہران نے سفارتی راستہ اپنایا لیکن اسے اس راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تجربے سے دو اہم پیغامات سامنے آئے ہيں:
پہلا یہ کہ ایران سفارتی استقامت کا دعوی کر سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ سفارتی چینل کی ناکامی، مخالف فریق کو طاقت کے مظاہرے اور فوجی دباؤ کی طرف مائل کرتی ہے ۔ واشنگٹن بظاہر اس نتیجے پر پہنچ گيا ہے کہ موجودہ حالات میں "فوجی ا اور سیکیورٹی دھمکی" سفارتی کوششوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے موثر ہوگی۔
قانونی اور سیاسی نقطہ نظر سے، اسنپ بیک میکانزم کو فعال کئے جانے اور اقوام متحدہ کے منشور کی ساتویں شق کے تحت ایران کے خلاف قراردادوں پر عمل در آمد ، ایران کے خلاف کارروائی کا جواز فراہم کرتا ہے اور اس سے مغرب کو دھمکیوں یا یہاں تک کہ محدود آپریشنوں کا جواز پیش کرنے کی کھلی چھوٹ ملتی ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ایران کے خلاف حالیہ صیہونی جارحیت سمیت تمام کارروائيوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ اور صیہونی حکومت، قانونی دائرے الک کام کرتے ہیں۔ اس لئے "قانونی جواز" کی موجودگی یا عدم موجودگی ہمیشہ کارروائی میں رکاوٹ نہیں ہوتی تاہم اس طرح کی باتیں در اصل علاقائی حمایت حاصل کرنے کا ایک حربہ ہے ۔
اس تناظر میں، نیتن یاہو کی جانب سے قطر سے معافی اور جارحیت کے اعادے سے پرہیز کا عہد، ایک تکمیلی اقدام ہے جس کے ذریعے علاقے میں واشنگٹن کی شبیہ کو بہتر بنانے اور ایران کی کارروائيوں کو بے اثر بنانے کا ایک حربہ ہے۔
اہم اسٹریٹجک نکتہ یہ ہے کہ مغربی فریق خاص طور پر ٹرمپ دیگر محاذوں پر ناکامی کے خلا کو پر کرنے کے لیے ایک ٹھوس غیر ملکی کامیابی کی تلاش میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔
ٹرمپ کا خیال ہے کہ وہ خود کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کے لئے ، ایک کم لاگت والے آپشن کے طور پر ایران کو استعمال کر سکتے ہيں تاہم ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس منصوبے میں ایران کی حقیقی طاقت اور جوابی کارروائی کی شدت کو مد نظر نہيں رکھا گيا ہے ۔ ایران کی توانائی اور بڑھتی طاقت ، اس قسم کی کسی بھی جارحیت کو جارح طاقتوں کے لئے بے حد مہنگا بنانے پر قادر ہے۔

ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف نے خلیج فارس میں ایرانی بحریہ کی چھاونیوں کے معائنے کے دوران جو یہ پیغام بھیجا ہے کہ " مستقبل میں ممکنہ تصادم کے لیے ہماری تیاری زبردست ہے " تو اسے سنجیدہ انتباہ سمجھا جانا چاہیے۔
خلیج فارس میں جو حالات ہيں وہ ایسے مرحلے میں داخل ہو چکے ہيں جہاں کوئی بھی فوجی کارروائی یا غلط حساب کتاب وسیع پیمانے پر اور زیادہ خرچ والے تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔ لہذا، عقل کا تقاضا یہ ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی کھلاڑی کشیدگی میں کمی کے راستوں اور کم لاگت والے سفارتی چینلز کو سنجیدگی سے لیں، اس سے پہلے کہ اسٹریٹجیک مقابلہ ایک تباہ کن اور ناقابل کنٹرول تنازعہ میں بدل جائے جس کے نتائج سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پائے گا۔