ٹرمپ نے حماس کے جواب کو کیوں قبول کیا؟ کچھ پس پردہ حقائق
اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس کا جواب ٹرمپ کے منصوبے کو مکمل طور پر قبول کرلینے کے معنی میں نہیں ہے جس کا ثبوت خود حماس کا بیان ہے ۔
سحرنیوز/ایران: حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کے کچھ حصوں جیسے یرغمالیوں کی رہائی، جنگ بندی، غزہ سے مکمل انخلا، اور غزہ پٹی کے انتظام کو ٹیکنوکریٹس کی کمیٹی کے حوالے کئے جانے کا خیر مقدم کیا ہے اور ان پر توجہ مرکوز کی ہے جبکہ ترک اسلحہ ، غزہ پٹی کے مستقبل اور غیر ملکی فوجوں کی تعیناتی کو بالواسطہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ نے صیہونی حکام کو جھٹکا دیتے ہوئے کیوں حماس کے اس جواب کو قبول کر لیا؟
اس میں کئی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں:
1- سب سے پہلے یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ ٹرمپ، نیتن یاہو یا پھر دونوں ہی حماس کے جواب کو تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کے ہاتھ سے دباؤ کے اس ہتھیار کو چھیننے کے لیے اسے ایک موقع سمجھ رہے ہیں، اور اسی لیے، امریکی صدر نے حماس کی جانب سے اپنے منصوبے کی کئي شقوں کی مخالفت کے باوجود ، صبر کرتے ہوئے اس کے جواب کو قبول کر لیا ہے اس صورت میں ان اسرائيلی قیدیوں کی رہائی کے بعد، حملے دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔

لیکن اگر یہ بات درست بھی مان لی جائے، تب بھی حقیقت یہ ہے کہ ان اسرائيلی یرغمالیوں کی رہائی کے بعد، چاہے وہ صرف عمر قید کی سزا یافتہ 250 فلسطینیوں اور غزہ کے تقریبا دو ہزار دیگر باشندوں کی رہائی کے بدلے ہی کیوں نہ ہو، اسرائيل کے لئے غزہ میں نسل کشی کو اسی شکل میں جاری رکھنا اور غزہ کے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنا ممکن نہیں رہے گا اور اسرائیل کے پاس اپنے جرائم جاری رکھنے کا بنیادی بہانہ ختم ہو جائے گا۔
یہاں تک کہ اگر اسرائیل غزہ کو غیرمسلح کرنے اور حماس کی فوجی صلاحیت کی بحالی کو روکنے کے بہانے سے دوبارہ حملے شروع کرتا ہے، جس کا امکان زیادہ ہے، تب بھی وہ پہلے کی طرح 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی نسل کشی اور بھوک اور قحط کی پالیسی جاری نہيں رکھ پائے گا اور اس میں اسے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
2- دوسرا عامل یہ ہے کہ حماس نے اپنے اس جواب کے ذریعے درحقیقت گیند ٹرمپ کے پالے میں ڈال دی ہے اور امریکی صدر کے پاس اس سلسلے میں 2 سے زیادہ آپشن نہیں تھے؛ یا تو حماس کے جواب کو قبول کرتے یا اسے مسترد کر دیتے۔
کچھ دن پہلے، ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر حماس اس کی تجویز پر منفی جواب دیتا ہے تو وہ حماس کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن کارروائی کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ خود، بہتر طور پر جانتے ہيں کہ غزہ کے عوام اور حماس پر تباہی کی ایسی کوئی شکل نہیں بچی ہے جس سے انہيں دوچار نہ کیا گیا ہو اس لیے، بنیادی طور پر حماس پر دباؤ کا کوئی اور ایسا حربہ نہیں بچا تھا جسے امریکہ اور اسرائیل نے استعمال نہ کیا ہو لیکن اس کے باوجود انہيں غزہ میں مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔

ہاں یہ صحیح ہے کہ غزہ کے باقی ماندہ باشندوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے جیسا حربہ اب بھی باقی ہے لیکن اس پر عمل در آمد ٹرمپ کے لیے، جو نوبل امن انعام کے خواہاں ہيں ، ممکن نہیں ہے اور اگر ایسا ممکن ہوتا تو صیہونی حکومت خود مہینوں پہلے ہی اس پر عمل درآمد کر چکی ہوتی۔
اس سلسلے میں، ان دو برسوں کے دوران اس المیہ کے باوجود غزہ کے عوام کا اپنی زمین سے وابستہ رہنا ایک بہت اہم عامل رہا ہے اور ہے۔
3- تیسرا عامل یہ ہے کہ حماس نے ذہانت کے ساتھ کچھ ایسے اپنا جواب مرتب کیا ہے کہ اس سے ٹرمپ خوش ہو گئے اور اسے قبول کرنے کی راہ اس طرح سے ہموار ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس نے ٹرمپ کی طرف سے پیشکش کے بعد پیدا ہونے والے بھاری بین الاقوامی دباؤ سے نکلنے کے لیے راستہ ہموار کیا۔
حماس نے اپنے جواب کا آغاز ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کیا اور پھر بیان کے شروع میں ہی دو بار کلیدی الفاظ "تمام یرغمالیوں کی رہائی" اور پھر غزہ پٹی کے انتظام کو فلسطینی ٹیکنوکریٹس کی کمیٹی کے حوالے کرنے کی "منظوری" کا استعمال کیا۔ اس کے بعد اس نے ٹرمپ کے منصوبے کی دیگر شقوں کی بالواسطہ مخالفت کو نرم اور شائستہ انداز میں ظاہر کیا اور ان شقوں سے اتفاق کو فلسطینی قومی اتفاق رائے وغیرہ سے وابستہ بتایا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کا حوالہ دیا۔
لہٰذا، ہمارے خیال میں مذکورہ بالا تین عوامل کی بنا پر، ٹرمپ نے حماس کے جواب میں ، یوکرین کی جنگ اور ایران کے خلاف کارروائی کے دوران ، اپنے لئے نوبل انعام کے حصول کے لئے پروپگنڈے کا بہترین موقع دیکھا اور جھٹ سے اسے قبول کر لیا بھلے ہی جواب میں ٹرمپ کی ہر خواہش پوری نہیں کی گئی تھی۔

دوسری طرف حماس نے بھی ٹرمپ کے منصوبے میں جنگ کو روکنے کا ایک موقع دیکھا اور ثالثوں کے ساتھ ہم آہنگی کرتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
لیکن ان سب کے درمیان جو بات سب سے زیادہ دلچسپ تھی، وہ ٹرمپ کا حماس کے جواب پر بے حد فوری ردعمل تھا جس کی ایک اور بہت اہم وجہ بھی تھی۔
درحقیقت ٹرمپ نے حماس کے جواب پر فوری رد عمل ظاہر کرکے نیتن یاہو کے لیے حماس کے جواب کی مخالفت کا راستہ فورا بند کرنا چاہا۔ ٹرمپ کی طرف سے کسی بھی طرح کی تاخیر، نیتن یاہو کے لئے حماس کے جواب کی مخالفت کا یا پھر اس سلسلے میں امریکی حکومت کو مخالفت کے لئے تیار کرنے کی غرض سے بات چیت کا موقع فراہم کر سکتی تھی اور اس صورت میں خود امریکی صدر کے لیے بھی اس جواب کو قبول کرنا مشکل ہو جاتا۔
( نور نیوز فارسی سے ماخوذ)