کیا ساٹھ فیصد قابض فوجی عراق سے نکل چکے ہیں؟
عراق کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ ہتھیاروں کی زبان سے نہیں بلکہ گفتگو کے ذریعے اتحادی فورسز کے ساٹھ فیصد فوجیوں کو عراق سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
مصطفی الکاظمی کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ قابض فوجی اور ان میں سب سے آگے امریکی فوجی بنیادی طور پر عقل و منطق کے تابع ہیں اور جب ان سے منطقی بات کی جاتی ہے تو وہ اسے مان لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ
اس طرح کے منطقی انسانوں نے سولہ سال سے عراق پر اپنا قبضہ کیوں ختم نہیں کیا؟
کیوں وہ عراق میں ثبات و استحکام کی بحالی کو ہمیشہ چیلنج کرتے رہتے ہیں؟
صدام کی سرنگونی کو سترہ سال گزرنے کے باجود کیوں اب بھی عراق میں انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے؟
کیوں امریکہ میں ضبط کیے گئے عراق کے کم از کم ستر ارب ڈالر عراقی حکام کو نہیں دیے جاتے؟
ایک رپورٹ کے مطابق عراق میں بیس ہزار امریکی ہیں جن میں فوجی، سیکورٹی اہلکار، ٹرینر اور اسی طرح کے دوسرے افراد شامل ہیں۔
کیا ان میں سے تقریبا ڈھائي ہزار افراد کے نکل جانے کا مطلب ساٹھ فیصد غیر ملکی فوجیوں کا نکل جانا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ، عراق سے نکلنا ہی نہیں چاہتا اور اس کی یہ غاصبانہ موجودگي اس بات کا سبب بنی ہے کہ دوسرے ممالک بھی عراق میں اپنی موجودگی جاری رکھنے پر اصرار کریں۔ جس طرح سے امریکہ، شام سے باہر نہیں نکلنا چاہتا، اسی طرح وہ عراق میں بھی اپنی موجودگي جاری رکھنا چاہتا ہے۔
ممکن ہے کہ گفتگو سے اس ٹیلے میں معمولی سی دراڑ پڑ گئي ہو لیکن صحیح بات یہ ہے کہ امریکہ کی اصل ماہیت کو عراقی استقامت نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے اور شاید اب وقت آ گيا ہے کہ استقامت کی زبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا جائے تاکہ عراق سے امریکہ کی غاصبانہ موجودگي کا خاتمہ ہو سکے۔