افغانستان سے غیرملکی شہریوں کو باہر نکالنے کے لئے فوجی طیاروں کا استعمال
افغانستان سے غیر ملکی سفارتکاروں اور شہریوں کو باہر نکالنے کے لئے فوجی طیاروں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
افغانستان کے ایک سیکورٹی ذریعے نے کہا ہے کہ غیرملکی سفارتکاروں اور شہریوں کو اس ملک سے باہر نکالنے کے لئے فوجی طیاروں نے پروازیں بھرنا شروع کردی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق کابل ایئرپورٹ جو پیر کو ہزاروں ایسے افغان شہریوں سے بھرا ہوا تھا جو کابل سے فرار کرنا چاہتے تھے اب وہاں پر ازدحام ختم ہوگیا ہے اور بھیڑ چھٹ گئی ہے۔
امریکی فوجیوں نے بھی افراتفری کے باعث پروازوں کا سلسلہ روک دیا تھا۔ برطانیہ میں سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ گـذشتہ رات افغانستان سے ایک سو پچاس افغان شہریوں کو باہر نکال لیا گیا ہے۔ برطانیہ نے اپنے دیگر ساڑھے تین سو برطانوی شہریوں اور افغان ملازمین کی اس ملک سے منتقلی موخرکردی ہے۔
اس درمیان اطلاعات ہیں کہ افغانستان میں غیریقینی صورتحال کے پیش نظر تمام بین الاقوامی ایئرلائینز نے اس ملک کی فضائی حدود کا استعمال بند کردیا ہے اور وہ دوسرے فضائی راستوں کو اختیار کررہی ہیں۔ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کی دو ایئرلائینز کی جانب سے افغانستان کی فضائی حدود میں پرواز نہ کرنے کے اعلان کے بعد چند دیگر بین الاقوامی کمپنیوں نے بھی سیکورٹی انتباہ جاری کیا ہے۔
برطانیہ، جرمنی، کینیڈا اور ہندوستان کی ہوائی کمپنیوں نے بھی افغانستان کی بحرانی صورت حال اور کمرشل طیاروں پر حملے کے امکان کے پیش نظر جدید ضوابط نافذ کردیئے ہیں۔ برٹش ایئرویز نے افغانستان کی فضائی حدود میں پروازوں کو ممنوع قراردے دیا ہے۔ روس کی ایئروفلوٹ اور ایئروبریج کارگو کمپنی نے بھی افغانستان کی فضائی حدود میں اپنی پروازیں منسوخ کردی ہیں۔ ترکی کی ہوائی کمپنی نے بھی افغانستان کے لئے اپنی پروازیں منسوخ کردی ہیں۔
افغانستان کے ایوی ایشن کے ادارے نے بھی اعلان کیا ہے کہ کابل کی فضاؤں میں انجام پانے والی پروازوں کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
دوسری جانب طالبان نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان کی آئندہ حکومت کے بارے میں دوحہ میں جاری مذاکرات کے نتائج کا اعلان جلد ہی کیا جائے گا۔
طالبان کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ افغانستان میں مستقبل کے نظام حکومت ، اس کے نام اور اس کے ڈھانچے کے بارے میں دوحہ میں صلاح و مشورہ کیا جا رہا ہے اور طالبان اس سلسلے میں اپنے موقف کا اعلان بہت جلد کریں گے۔
طالبان کے سیاسی شعبے کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے بھی یاد دہانی کرائی ہے کہ طالبان کی آزمائش کا وقت آگیا ہے اور اب اسے ثابت کرنا ہے کہ وہ ملک کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
واضح رہے طالبان نے متعدد صوبوں اور دارالحکومت پر قبضے کے بعد ملک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے طالبان کے کابل پہنچتے ہی ملک چھوڑ دیا اورابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان میں مستقبل میں کس قسم کی حکومت قائم ہوگی۔