خالد قدومی: واقعی امت اسلامیہ دشمن کے مقابلے میں کھڑی نہیں ہوسکتی؟
تہران میں حماس کے نمائندے خالد قدومی نے کہا ہے کہ ہم نے جنگ کے دوسر ے ہی دن سے ایران کے صدر اور وزیر خارجہ کے سفارتی اقدامات کا مشاہدہ کیا جو بہت اہم ہیں۔
سحرنیوز/عالم اسلام: تہران میں حماس کے نمائندہ خالد قدومی نے ارنا کے نامہ نگار کے ساتھ بات چیت میں، غزہ کے عوام کی نسل کشی کے موضوع پر ریاض ہنگامی اجلاس کے بارے میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ عرب سربراہوں سے ہمیں بہت توقع تھی لیکن افسوس کہ یہ اجلاس تاخیر سے ہوا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی بچوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جنگی جرائم سے امت اسلامی کے سفارتی اجتماع کی سطح قابل موازنہ نہیں ہے اور اس حکومت کے جنگی جرائم کی وسعت اور سطح سے مطابقت نہیں رکھتی۔
تہران میں حماس کے نمائندے نے کہا کہ کیا واقعی امت اسلامیہ دشمن کے مقابلے میں کھڑی نہیں ہوسکتی؟ کیا یہ دو ارب کی اسلامی برادری کی آبادی کم ہے؟ کیا ہمارے ذخائر کم ہیں؟ یا عالمی اور علاقائی سطح پر ہماری سیاسی پوزیشن کم ہے؟
خالد قدومی نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ امت اسلامیہ، اسلامی تعاون کی تنظیم اور او آئی سی سے فلسطینی عوام کو کمترین توقع یہ تھی کہ طبی اور انسان دوستانہ امداد کےلئے رفح پاس کو مستقل طور پر کھول دیا جائے۔
تہران میں حماس کے نمائندے نے کہا کہ آج غزہ کے عوام کی حمایت اور مدد کےلئے ایسے دلیرانہ سیاسی موقف اور سفارتکاری کی ضرورت ہے جو اس حکومت پر دباؤ ڈال سکے اور غزہ پر بمباریوں، عوام کے قتل عام اور محاصرے کے خاتمے اور بے گناہ عوام، معصوم بچوں کی خونریزی بند ہونے پر منتج ہو۔
خالد قدومی نے کہا کہ اگر ہم بولیویا، کمبوڈیا، یا جنوبی افریقا جیسے دنیا کے حریت پسند ملکوں کے سفارتی موقف سے امت اسلامیہ کے سیاسی اور سفارتی موقف کا موازنہ کریں تو کہنا پڑے گا کہ بعض غیر اسلامی اور غیر عرب ملکوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے روابط منقطع کر لئے یا کم کرتے ہوئے منقطع کرنے کی دھمکی دے دی۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم نے عالم اسلام میں ایسے کسی اقدام کا مشاہدہ نہیں کیا ہے، نہ سیاسی روابط ختم کئے گئے، نہ سفیروں کو واپس بلایا گیا اور نہ ہی اقتصادی روابط منقطع ہوئے۔ حماس کے نمائندے نے کہا کہ ہم آج اسرائیل کو انیدھن کیوں دے رہے ہیں؟ یا اس کےلئے ایندھن کی سپلائی میں مدد کیوں کر رہے ہیں؟ تہران میں حماس کے نمائندے نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ عالم اسلام فلسطین اور معصوم بچوں کے دفاع کےلئے فوج تیار کرے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کم سے کم رفح پاس کو مستقل طور پر کھولا جائے اور صیہونی دشمن سے سیاسی روابط ختم یا کم سے کم معطل کئے جائيں اور اس کے ساتھ تجارت روک دی جائے۔