یوکرین کی جنگ تمام تر سیاسی ، فوجی، اقتصادی، سماجی اور حتی ثقافتی اثرات کے ساتھ چودھویں ماہ میں داخل ہوگئی ہے۔
مغربی ملکوں کی جانب سے جنگ یوکرین کی آگ شعلہ ور رکھنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے
مغربی ممالک نے یوکرین کو اپنے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنا دیا ہے۔ امریکہ، کیف کو ابراہمز ٹینک دینے پر تلا ہوا ہے تو کینیڈا دسیوں لاکھ ڈالر کے ہتھیار یوکرین کی جنگ کی آگ میں جھونک رہا ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ امریکہ، فرانس اور انگلینڈ کے ایٹمی ہتھیاروں کو کنٹرول کرتا ہے۔
جرمنی اور ہنگری نے نیٹو میں یوکرین کی شمولیت کی متعلق رکن ملکون کے درمیان مکمل اتفاق رائے کے بارے میں اس فوجی اتحاد کے سربراہ ہینس اسٹولٹن برگ کے دعوے کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل اچانک یوکرین پہنچ گئے ہیں۔
امریکہ یوکرین کی جنگ کے شعلوں کو مزید بھڑکائے رکھنے کی بھرپور جد و جہد میں مصروف ہے۔
روس کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ مغرب یوکرین میں امن کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
امریکہ، یوکرین کو مزید پانچ ارب ڈالر فراہم کر رہا ہے۔
پولینڈ کے وزیر اعظم میٹیوش مورا ویسکی نے واشنگٹن میں امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس سے ملاقات اور امریکہ کے تعاون سے پورپ کی طاقتور ترین فوج بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔