Nov ۱۲, ۲۰۲۲ ۲۱:۰۸ Asia/Tehran
  • پوتین کے آگے مغرب اور امریکا پست، مغربی ایجنڈا زمین دوز

امریکا کے صدر جو بائیڈن اپنی محبوبیت کا گراف بری طرح سے نیچے آجانے کی وجہ سے بوکھلائے ہوئے ہیں جبکہ یوکرین کی جنگ میں بھی ان کی حکومت ناکام ہی رہی ہے۔ جنگ کو نواں مہینہ شروع ہونے والا ہے اور اب تک جو نظر آ رہا ہے وہ روس کی فوجی اور سیاسی کامیابیاں ہی ہیں۔

سحر نیوز/ دنیا: امریکا کے قومی سیکورٹی کے مشیر جیک سلیوان نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب نیکولائی پیٹروشیف سے بات کی ہے تاکہ جنگ یوکرین کا دائرہ نہ بڑھے اور ایٹمی جنگ کا خطرہ قریب نہ آئے۔

ان کے بیان سے لگتا ہے کہ امریکا نے دھیرے دھیرے جنگ یوکرین میں اپنی کمزوری قبول کرنی شروع کر دی ہے اور اب پر امن حل کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔ اس پوائنٹ پر حل کا مطلب یہ ہے کہ روس نے جن حصوں کا الحاق کیا ہے انہیں روس کے حصے کے طور پر ہی قبول کرنا ہوگا۔

ماسکو کے ساتھ مذاکرات کا چینل کھولنے پر امریکا کو مجبور کرنے والی ایک بڑی چیز جنگ کے میدانوں میں روس کا پلڑا بھاری ہو جانا تھا، حالیہ ہفتوں میں روس نے میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے حملے کرکے توازن کو بالکل بدل دیا۔ بہت سارے لوگوں کی پانی کی سپلائی کٹ گئی، بجلی کی سپلائی کٹ گئی، بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا، سردی کا موسم بھی آ گیا ہے اور لاکھوں یوکرینی شہریوں کو پناہ گزینوں کے کیمپوں میں پناہ لینی پڑی ہے۔

امریکا میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے یوکرین اور وہاں کے صدر زلینسکی کے مفاد میں نہيں ہیں کیونکہ مضبوط پوزیشن حاصل کرنے والی رپیبلکن پارٹی کو اس بات پر اعتراض ہے کہ امریکا کا بڑا بجٹ یوکرین کی جنگ میں تباہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب تک چالیس ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کی قیادت پر شدید دباؤ ڈالا ہے کہ جنگ رکوانے کے لئے روس کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھولیں تاہم زلینسکی نے یہ دباؤ قبول نہیں کیا اور وہ جنگ سے پسپائی اختیار نہيں کرنا چاہتے ہیں۔

زلینسکی کو اچھی طرح پتہ ہے کہ وہ امریکی حمایت سے ہی اقتدار میں باقی ہیں اسی لئے آخرکار انہیں امریکی دباؤ کے سامنے جھکنا پڑے گا اور روس کی شرطوں پر جنگ بندی کرنی پڑے گی۔

جیسے ہی سردی کا موسم شروع ہوا، امریکا اور یورپی ممالک ایک ایک کرکے اس جنگ سے پیچھے ہٹنے لگے ہیں۔ اب اگر زلینسکی کو یہ امید ہے کہ روس کے اندر پوتین کے خلاف بغاوت ہو جائے گی یا کینسر میں مبتلا ہوکر پوتین کی موت ہو جائے گی تو یہ سب ان کی خام خیالی ہے۔ انہیں بھی سبق لینا چاہئے کہ امریکا نے کیوں روس کے ساتھ بات چیت کے چینل کھول لئے ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ جو بائیڈن انڈونیشیا میں جی 20 اجلاس میں پوتین سے ملاقات نہ کرنے کے اپنے اعلان سے بھی پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ جیسے وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات نہ کرنے کے اپنے اعلان سے پیچھے ہٹ گئے اور ذلیل ہو کر ریاض کے دورے پر جانے کے بعد وہاں سے واپس آئے۔ ہم یہ بات اس امکان کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ پوتین جی - 20 اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں ورنہ یہ واضح نہیں ہے کہ پوتین اس میں شرکت کریں گے یا نہیں۔ کچھ رپورٹوں میں یہ کہا گیا ہے کہ پوتین جی-20 کے سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ پوتین اور روس کو جھکانے کا مغرب کا ایجنڈا بری طرح زمین دوز ہو گیا ہے۔

بشکریہ

عبد الباری عطوان

دنیائے عرب کے مشہور تجزیہ نگار

* مقالہ نگار کی رائے سے سحر عالمی نیٹ ورک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔*

ٹیگس