غزہ کی صورتحال پر مغربی حکام کی دوغلی پالیسی کی وجہ؟
مغربی حکام غزہ کی صورتحال پر منافقانہ تشویش کا اظہار تو کررہے ہیں مگر اپنی ہی پالی ناجائز حکومت کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
سحر نیوز/ دنیا: جرمن چانسلر اولاف شولٹز نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے پناہ گزین کیمپوں پر بمباری المناک ہے اور اس سلسلے میں تحقیقات کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ایکس پیج پر لکھا کہ ہم نے رفح کے خلاف زمینی فوجی کارروائی پر بارہا مخالفت کا اظہار کیا اور یہ کہ کسی بھی زمینی حملے میں عام شہریوں کو نہیں بچایا جا سکتا۔
ادھر کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو نے کہا ہے کہ ان کا ملک رفح میں عام شہریوں پر اسرائیل کے جارحانہ حملے پر وحشت زدہ ہے اور اوتاوہ اس طرح کے حملوں کی کبھی حمایت نہیں کر سکتا۔
انھوں نے رفح پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی ہولناک تصاویر شائع ہونے پر کہا کہ کینیڈا رفح پر اسرائیل کے اس قسم کے حملوں کی ہرگز حمایت نہیں کر سکتا ۔ انھوں نے کہا کہ ہم دسمبر سے جنگ بندی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ البتہ انھوں نے نامہ نگار کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ اسرائیل کی اس طرح کی جارحیت پر کینیڈا کا کیا ردعمل ہو گا۔
امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے بھی رفح کے پناہ گزین کیمپ پر اسرائيل کے حملے کے بارے میں کہا کہ رفح پر اس حملے کو صرف غم انگیز ہونے سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ غم انگیز ہونے سے کہیں زیادہ ہے تاہم کملا ہیرس نے بھی اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا کہ کیا اس حملے سے امریکی ریڈ لائن توڑی گئی ہے۔
کملا ہیرس نے اعلان کیا کہ رفح پر حملہ غم انگیز ہونے سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ انھوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ تو پھر کیا رفح پر اسرائیلی حملہ امریکی ریڈ لائن کو عبور کئے جانے کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے؟
بہرحال امریکہ اور یورپی ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے خاص اور قریبی تعلقات کی وجہ سے حقائق سے چشم پوشی کر رہے ہیں اور اسی لئے ان ممالک نے اسرائیل کی جارحیت پر اپنی آنکھیں بند کی ہیں۔