یورپ کے ڈاکٹروں اور نرسوں میں اپنی زندگی ختم کرنے کا بڑھتا رجحان
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے انکشاف کیا ہے کہ یورپ میں طبی عملہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے جہاں 10 فی صد ڈاکٹر اور نرسوں نے خودکشی یا خود کو نقصان پہنچانے کے خیالات کی تصدیق کی ہے۔
سحرنیوز/دنیا: موصولہ رپورٹ کے مطابق یہ تشویشناک نتائج ڈبلیو ایچ او، یورپ اور یورپی کمیشن کے اشتراک سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق سے سامنے آئے ہیں۔ یہ تحقیق اکتوبر 2024 سے اپریل 2025 کے دوران 29 یورپی ممالک میں کی گئی۔
یورپ میں ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر ہینز کلوگے نے صورت حال کو نہایت سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ طبی عملے میں ذہنی صحت کا بحران محض ایک ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تر عوامی صحت کے نظام کی پائیداری کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران نہ صرف مریضوں کی دیکھ بھال کے معیار کو متاثر کرے گا بلکہ مستقبل میں طبی شعبے میں اعداد و شمار کے لحاظ سے شدید انسانی وسائل کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق 25 فی صد طبی عملہ ہفتے میں 50 گھنٹے سے بھی زیادہ کام کرتا ہے۔ ایک تہائی طبی کارکنوں کی ملازمت عارضی بنیادوں پر ہے جس سے روزگار کے عدم تحفظ اور ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹروں اور نرسوں میں خودکشی کے خیالات عام لوگوں کے مقابلے میں دوگنے زیادہ پائے گئے۔ 10 فی صد طبی عملے کے افراد نے کہا کہ گزشتہ دو ہفتوں میں انہوں نے موت یا خود کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچا۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ تقریباً ایک تہائی نرسیں اور ڈاکٹر اپنے کام کے دوران تشدد یا بدسلوکی کا سامنا کرتے ہیں جبکہ طویل اوقاتِ کار اور دباؤ کے ماحول نے ان میں ڈپریشن اور ذہنی تھکن کو عام کر دیا ہے۔ تحقیق کے مطابق یورپ میں 11 سے 34 فی صد طبی کارکنان اپنی ملازمت چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی صورت حال جاری رہی تو 2030 تک یورپ کو تقریباً 9 لاکھ 40 ہزار طبی کارکنوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ میں اس بحران سے نمٹنے کے لیے کئی اہم اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، جن میں کام کی جگہ پر تشدد کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی، کام کے نظام میں اصلاحات تاکہ عملے کو مناسب آرام میسر ہو، ذہنی صحت کی سہولیات تک آسان اور معیاری رسائی اور روزگار کے استحکام کے لیے مستقل ملازمتوں کا فروغ شامل ہیں۔
اگرچہ اعداد و شمار تشویش ناک ہیں تاہم رپورٹ کے مطابق دو تہائی نرسیں اور تین چوتھائی ڈاکٹر اب بھی اپنے پیشے کو باعزت، بامقصد اور اہم سمجھتے ہیں جو امید کی ایک کرن ضرور ہے۔