پوتین ہندوستان میں؛ ماسکو–دہلی جوہری تعاون اور امریکہ کی فکر مند نگاہیں
وِلادیمیر پوتین کا چار سال بعد ہندوستان کا سرکاری دورہ، خاص طور پر سربراہی اجلاس سے عین پہلے، ایک عام واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ دورہ ایسے نازک وقت پر ہو رہا ہے جب روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین پر مذاکرات جاری ہیں اور بیجنگ اور واشنگٹن دونوں عالمی طاقت کے مستقبل کے ڈھانچے کو بڑی حساسیت سے دیکھ رہے ہیں۔
سحرنیوز/دنیا: ہندوستان و روس کی تاریخ، دفاعی تعلقات کا وسیع دائرہ کار، اور برطانوی سامراج کی مشترکہ یادیں، ایک ایسا سرمایہ ہے جو نئی دہلی–ماسکو تعلقات کو معمول کے تعاون کی سطح سے کافی بلند کر دیتا ہے۔
ہندوستان کئی دہائیوں تک روسی اسلحے کا اہم خریدار رہا ہے اور یہ ماضی عالمی تبدیلی کے اس موڑ پر ایک موقع بن گئی ہے؛ ایک ایسا موقع جس کے بارے میں نئ دہلی کو بخوبی علم ہے کہ اگر اسے تازہ دم کیا جائے تو یہ مغرب کے خلاف دباؤ کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔
پچھلی دہائی میں ہندوستان نے واشنگٹن اور یورپ کی جانب واضح طور پر رخ موڑ لیا تھا؛ جوہری معاہدے، فوجی خریداریاں، تل ابیب کے ساتھ قریبی تعلقات، اور مشترکہ منصوبوں میں شرکت یہ سب اس کی مثالیں ہیں لیکن حقیقت یہ تھی کہ نئی دہلی کے لیے مغرب کی جانب یہ سفر ہنگامہ خیز اور بے نتیجہ ثابت ہوا۔ یوکرین جنگ نے یورپ کو فعال اقتصادی کردار ادا کرنے سے روک دیا اور ٹرمپ کی جیت نے ہندوستان کو اتحادی سے گرا کر ایک "تجارتی چیلنج" میں تبدیل کر دیا؛ امریکہ کی جانب سے بھاری ٹیرف نے واضح کر دیا کہ یہ رشتہ کتنا نازک ہے ۔
دوسری طرف، غزّہ کی تباہ کاریوں کے تناظر میں صیہونی حکومت کے قریب ہونا ہندوستان کی سماجی مقبولیت کو کمزور کر رہا ہے ۔
اس دوران پاکستان نے زیادہ متوازن سفارت کاری سے اپنی علاقائی پوزيشن بہتر کی۔ ایسی صورت حال میں ہندوستان اسٹریٹجک طور پر مشرق کی جانب واپسی پر مجبور ہے؛ ماسکو کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مضبوط کرنا، ایس-500 خریدنا، اور روس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعلقات قائم کرنے پر اصرار، ہندوستان کی نئی سمت و سو کے تعین کی واضح علامتیں ہیں۔
روس نے بھی یہ سمجھ لیا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات اگرچہ حکمت عملی کے لحاظ سے مفید ہو سکتے ہیں لیکن اسٹریٹجی کے اعتبار سے امریکا پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
پوتین صاف کہتے ہیں کہ ڈونباس اور نووروسیا کو آزاد کرانا ایک حتمی ہدف ہے؛ یا تو یوکرین کے پیچھے ہٹنے کے بعد یا پھر فوجی پیش قدمی سے۔
در ایں اثنا محاذ جنگ کے ساتھ ساتھ، توانائی کی سفارت کاری اور جوہری ٹیکنالوجی روس کی نئی طاقت کا ستون بن گئی ہے۔ مغرب کی پابندیوں نے نہ صرف یہ کہ روس کے قدم نہيں روکے بلکہ ماسکو کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ فعال تعاون کا ذریعہ بھی فراہم کر دیا ۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، رشت-آستارا ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کی توسیع، شنگھائی تعاون اور برکس میں تعاون بڑھانا، اور دوست ممالک کو روسی اسلحہ سے لیس کرنے کا منصوبہ، یہ سب مغربی دباؤ کو کم کرنے کی ماسکو کی اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔
پوتین دورہ ہندوستان ، وہ بھی ایسے موقع پر جب امریکی دھمکیاں اپنے عروج پر ہوں، بالکل اسی اسٹریٹجی کا عملی مظاہرہ ہے؛ جس کے تحت دونوں ممالک نے 2030 تک 100 ارب ڈالر کے باہمی تجارت کے ہدف کا مقصد طے کیا ہے۔
ہمیں فالو کریں:
Follow us: Facebook, X, instagram, tiktok
اگرچہ ہندوستان نہ یہ کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ چاہتا ہے کہ مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات توڑ لے اور وہ آج بھی پاکستان کے مقابل عالمی معیشت میں کافی حد تک موثر کردار کا حامل ہے لیکن اب وہ روس کے ساتھ اس مشترکہ نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ یک قطبی دنیا زوال پذیر ہے۔
نئی دہلی–ماسکو کا تعاون محض ایک دو طرفہ تعلق یا برکس کے تناظر میں کیا جانے والا تعاون نہیں، بلکہ یہ تعاون نئے چند قطبی نظم کی تشکیل کے عمل کا حصہ ہے؛ ایک ایسا نظم جو توازن، معاشی تعلقات میں تنوع، ڈالر کی بالادستی میں کمی، اور سیکوریٹی پر مغرب کی اجارہ داری کو ختم کرنے پر مرکوز ہے۔
تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ ڈھانچے کے سامنے ہر پسپائی مغرب کی طرف سے مزید مطالبات کا باعث بنتی ہے۔
اسی لیے ہندوستان اور روس کا قریب ہونا کوئی وقتی حکمت عملی نہیں، بلکہ عالمی طاقت کے نظام میں فعال کردار ادا کرنے کی جانب ایک اسٹریٹجک عمل ہے؛ ایک ایسا عمل جو واضح طور پرنئ دہلی میں شروع ہو چکا ہے اور اس کا پیغام پوری دنیا کے لئے واضح ہے: مغرب واحد آپشن نہیں ہے۔
(نور نیوز سے ماخوذ)