عید بعثت کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی کا اہم خطاب
ہم جنگ کے خلاف ہیں، امریکہ نے یوکرین کو بحران سے روبرو کیا: رہبر انقلاب اسلامی
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی مبارک تاریخ یعنی عید مبعث کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے براہ راست خطاب میں عید بعثت کی عالم اسلام، ایرانی قوم اور تمام حریت پسندوں کو مبارکباد پیش کی۔
عید بعثت البنی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے موقع پر ایرانی قوم اور مسلم امہ سے بذریعہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بعثت نبی اکرم کو انسانیت کے لیے عظیم عطیۂ الہی قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ بعثت نبی اکرم کا نتیجہ تھا جس نے دور جاہلیت میں جینے والے جزیرہ العرب کے لوگوں کو باکمال امت میں تبدیل کر دیا ہے جو بظاہر محال اور ناممکن دکھائی دیتا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جب لوگ اپنے عزم و ارادے کو مشیت الہی کا تابع بنالیں تو ناممکن کام بھی ممکن ہو جاتا ہے اور دور نبوی کا یہ تجربہ تاریخ میں دہرایا جاتا رہا ہے اور ایسا ہی ملت ایران کے ساتھ بھی ہوا ہے، جس نے امام خمینی (رح) کی مخلصانہ قیادت اور عوام کے عزم راسخ سے ایک بظاہر ناممکن کام کو ممکن بنا دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسی نبوی تجربے کی دین ہے کہ ایرانی عوام نے ایرانی شہنشاہیت کی بساط ہمیشہ کے لیے لپیٹ دی حالانکہ امریکہ، برطانیہ اور سابق سویت یونین سب پہلوی حکومت کی پشت پناہی کر رہے تھے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے پیغمبر اسلام (ع) کی معین کردہ خطوط کے طفیل میں ایران میں رقم ہونے والے اسلامی انقلاب کو دنیا والوں کے لئے ایک نمونۂ عمل قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ تعلیمات نبوی کی روشنی میں جو انقلاب ایران میں آیا اُس نے دنیا والوں کو اس قدر متاثر کیا کہ اگر تہران سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ملک میں (مکتب انقلاب کے پروردہ) شہید قاسم سلیمانی کی اہانت کی جاتی ہے تو لوگ اس قدر سخت ردعمل دکھاتے ہیں کہ شہید کی اہانت کرنے والی وہاں کی پولیس خود شہید کی تصاویر دوبارہ چسپاں کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اُسے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرتی پڑتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تحریک نبوی کے برخلاف لوگ دین اور سیاست کو الگ الگ تصور کرتے ہیں اور جنہوں نے اس تصور کو رائج کرنے کی کوشش کی ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو ملے گا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) نے ایک حکومت قائم کی اور اس کے بعد آپ نے دشمنان اسلام کا بھر پور مقابلہ کیا، پیغمبر نے کہیں جنگ کی اور کہیں دفاع کیا، شرک کے اس وقت کے مرکز مکہ کو آپ نے حکومت کی تشکیل اور لشکر کشی کے بعد فتح کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کو ماڈرن دور جاہلیت کا مکمل اور واضح نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ امریکا ایسا ملک ہے جہاں ناپسندیدہ خصلتوں اور تمام اخلاقی برائیوں کی ترویج کی جا رہی ہے، تعصبات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، سرمائے کا ارتکاز محض دولت مندوں کی سمت ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سردی اور گرمی کی شدت میں تھوڑے اضافے سے، بہت سے لوگ سڑکوں پر جان دے رہے ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکہ کو دنیا میں بحران سازی کا مرکز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ درحقیقت امریکہ بحران پیدا کرنے اور بحرانوں کے ذریعے زندہ رہنے والا ملک ہے اور بحرانوں سے مال کماتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکہ ایک مافیائی ملک ہے جہاں سیاسی، اقتصادی، اسلحہ جاتی اور بہت سی دوسرے مافیاؤں نے حکومت پر قبضہ کر رکھا ہے اور یہ مختلف مافیا اپنی بقا کے لیے دنیا بھر میں بحران کھڑا کرتے رہتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے داعش کو امریکہ کا تربیت یافتہ کتا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آج یوکرین بھی امریکی پالیسی کی بھینٹ چڑھا ہے اور اس ملک کی تمام تر صورتحال امریکی پالیسی کا ہی نتیجہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یوکرین کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت، رنگین انقلابات اور مظاہروں کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی اور حکومت مخالف مظاہروں میں خود امریکی سینیٹروں کی موجودگی نے اس ملک کو آج اس صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے۔
یوکرین جنگ کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں فرمایا کہ ہم جنگ، خون خرابے اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کے حق میں نہیں، ہم جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہمارا یہ موقف پوری طرح اٹل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم مغرب کی طرح نہیں جو افغانستان میں شادی تقریبات پر بمباری کر کے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے استفسار کیا کہ امریکہ مشرقی شام میں کیا کر رہا ہے، شام کا تیل اور افغانستان کے اثاثوں پر ہاتھ کیوں صاف کر رہا ہے؟ وہ مغربی ایشیا میں اسرائیلی جرائم کی حمایت کیوں کر رہا ہے؟
رہبر انقلاب اسلامی نے یمنی عوام کے خلاف انجام پانے والے جرائم کو امریکہ اور یورپ کے متضاد رویوں کی ایک اور مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آٹھ سال سے یمنی عوام پر بمباری کی جاری ہے، لیکن مغرب والے اس کی مذمت نہیں کرتے بلکہ عوام کے خلاف حملوں کی ابلاغیاتی، زبانی اور حتی عملی حمایت بھی کرتے ہیں۔
آیت العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ہم یوکرین میں جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی بحران سے اسی وقت نمٹا جا سکتا ہے جب اس کی جڑوں کا پتہ لگایا جائے۔ آپ نے فرمایکہ کہ بحران یوکرین کی اصل جڑ امریکہ اور یورپ ہے، لہذا انہیں پہچاننے اور اس پہنچان کی بنیاد پر بحرانوں کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یوکرین کی صورتحال کو عبرتناک قرار دیتے فرمایا کہ اس مسئلے سے دیگر ممالک کو سبق لینے کی ضرورت ہے۔ آپ نے مغربی ممالک بالخصوص امریکہ پر بھروسہ کرنے والے ممالک کو خبردار کیا اور فرمایا کہ یوکرین کے بحران نے یہ واضح کر دیا ہے کہ دیگر ممالک کی حمایت اور مدد پر مبنی امریکہ اور مغربی ممالک کے دعوے محض ایک سراب ہیں اور اس حقیقت کا اعتراف افغانستان کے سابق صدر اور یوکرین کے موجودہ صدر نے واضح طور پر کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہر ملک کے لئے سب سے اچھی پشتپناہی اور حمایت، عوامی حمایت ہوا کرتی ہے اور اگر کسی حکومت کو عوامی حمایت و پشتپناہی حاصل ہو جائے تو پھر وہ مغلوب نہیں ہوتی اور اس حقیقت کا ہم نے ایران پر صدام کی مسلط کردہ جنگ کے دوران بخوبی مشاہدہ کیا۔ قائد انقلاب نے فرمایا کہ باوجود اس کے کہ ساری دنیا صدام حکومت کی پشتپناہی کر رہی تھی مگر ایران میں عوام میدان میں تھے اور حکومت کو عوامی پشتپناہی حاصل تھی جس کے باعث ایران نے کامیابی کے ساتھ اس مرحلے کو جو بظاہر ناممکن معلوم ہو رہا تھا، سر کر کیا۔