جوہری مذاکرات کو نتیجے تک پہنچانے کے لئے عبد اللہیان اور بورل کی پھر گفتگو
ایران کے وزیر خارجہ اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے ٹیلی فونی گفتگو پابندیوں کے خاتمے کیلئے ہونے والے مذاکرات کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بورل کے مابین کل رات ٹیلی فونی گفتگو ہوئی۔
اس ٹیلی فونی گفتگو میں ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر امریکہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے اور اس راہ میں عملی اقدام کرے تو بلا شک ایک اچھا بہتر اور پائیدار معاہدہ ہو سکتا ہے۔
اس ٹیلی فونی گفتگو میں حسین امیرعبداللہیان نے جوزپ بورل اور آنریکے مورا کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ بلاشک ایران ایک اچھا اور پائیدار معاہدہ چاہتا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران نے ہمیشہ سے ہونے والے مذاکرات میں نیک نیتی کا مظاہرہ کیا اور اب امریکہ کی باری ہے کہ وہ مثبت قدم اٹھائے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بورل نے اس ٹیلی فونی گفتگو میں کہا کہ ایران نے مذاکرات میں سنجیدگی اور مثبت رویے کا مظاہرہ کیا اور اب مذاکرات کو مطلوبہ نتیجے تک پہنچنا چاہئیے۔
جوزپ بورل نے ایک بار پھر مذاکراتی عمل کو شروع کرانے اور اسے مثبت نتیجے تک پہنچانے کیلئے اپنے اور اپنے معاون کی جانب سے کوششیں جاری رکھنے پر زور دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز یورپی یونین کے خارجہ پالیسی چیف جوزپ بورل نے روزنامہ فائنانشنل ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں ایران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات میں پائے جانے والے تعطل کے بارے میں لکھا تھا کہ ایٹمی معاہدے پر مکمل عملدرآمد کا معاملہ، سابق امریکی صدر کے معاہدے سے انخلا اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔
جوزپ بورل نے باقی ماندہ ارکان کی جانب سے معاہدے کو باقی رکھنے کی کوششوں کا دعوی کرتے ہوئے لکھا کہ ایران کے عوام پابندیوں کے خاتمے کے مکمل نتائج و فوائد سے محروم رہے ہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کے ڈپٹی خارجہ پالیسی چیف انریکے مورا نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ہر ممکن حدتک بہترین معاہدہ میز پر ہے۔ انہوں نے تمام فریقوں سے اپیل کی کہ وہ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے آخری اقدامات عمل میں لائیں۔ انریکے مورا کے بقول یہ تمام فریقوں کے لیے ایک بہترین معاہدہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو جو چیز ایک پائیدار معاہدے کو حتمی شکل دے دسکتی ہے وہ پابندیوں کا مکمل خاتمہ اور ایران کے مفادات کی ضمانت ہے۔ اسی بنیاد پر ایران نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مذاکرات میں تجاویز بھی پیش کی ہیں اور اقدامات بھی انجام دیے ہیں۔
پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا آٹھواں دور ستائیس دسمبر دو ہزار اکیس کو شروع ہوا اور مارچ دوہزار بائیس میں جوزپ بورل کی تجویز پر اس میں وقفہ دیا گیا تاکہ مذاکرات کار وفود ضروری صلاح و مشورے کے لیے اپنے اپنے دارالحکومتوں کو لوٹ سکیں۔
اس وقت سے آج تک امریکہ کی جانب سے ایران اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں اپنے غیر قانونی اقدامات کے ازالے کے لیے لازمی فیصلوں میں لیت و لعل سے کام لینے کے سبب، مذاکرات تقریبا تعطل کا شکار چلے آ رہے ہیں۔
درحقیقت ویانا مذاکرات صرف اس وجہ سے معطل ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ، ٹرامپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی مخالفت کے باوجود نہ تو اسے تبدیل کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی ایران مخالف پابندیوں کے خاتمے کی ضمانت دینے پر آمادہ ہے، جو ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی دوبارہ رکنیت کی اہم ترین شرط ہے۔