شام سے جانے کے بعد پہلی بار بشار اسد کا بیان آيا سامنے، دمشق چھوڑنے پر کیوں ہوئے مجبور شامی صدر؟
روس اور بعض عرب ذرائع ابلاغ نے شام کے صدر کے دفتر کے ٹیلی گرام چینل کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مبینہ بیان جاری کیا ہے جس میں بشار اسد نے دمشق سے نکلنے کے حالات اور اس کی وجوہات کے بارے میں بتایا ہے۔
سحرنیوز/عالم اسلام: بشار اسد سے منسوب اس بیان میں کہ جس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ہے ان کی زبانی لکھا ہے کہ:" دمشق کو چھوڑنے کا فیصلہ اچانک ہوا اور 8 دسمبر کے ابتدائی چند گھنٹوں تک بھی میں اپنے دفتر میں تھا۔"
اس بیان میں آیا ہے کہ شام میں دہشت گردی کے پھیلنے اور دمشق تک پھیل جانے کے موقع پر صدر کی صورتحال کے بارے میں افواہیں پھیلنے لگیں جس کا مقصد عالمی حمایت یافتہ دہشت گردی کو ہوا دینا تھا۔
بشار اسد سے منسوب اس مبینہ بیان میں آیا ہے کہ سیکورٹی مسائل اور مواصلاتی ذرائع کے منقطع ہوجانے کی وجہ سے اس وقت بیان جاری نہ ہوسکا لیکن مختصر طور پر اب بتایا جا رہا ہے اور آئندہ اس کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں گی۔
بشار اسد سے منسوب اس بیان میں آیا ہے کہ وہ دمشق پر مسلح افراد کے قبضے سے چند گھنٹے قبل تک اپنی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے اور اس کے بعد روس کی ہماہنگی سے لاذقیہ چلے گئے تا کہ فوجی آپریشن کا جائزہ لیں جہاں انہیں معلوم ہوا کہ شام کی فوج نے تمام محاذوں سے پسپائی اختیار کر لی ہے اور فوج کے تمام مراکز پر مسلح گروہوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔
بشار اسد سے منسوب اس بیان میں آیا ہے کہ انہوں نے کسی بھی فریق سے پناہ لینے یا عہدے سے ہٹ جانے کی درخواست نہیں کی تھی۔ اس بیان میں آیا ہے کہ "وہ شخص جو فلسطین اور لبنان کی مزاحمت سے دستبردار نہ ہوا اور اپنے اتحادیوں سے غداری نہیں کی وہ کس طرح سے اپنے عوام سے غداری کر سکتا ہے"۔
اس بیان میں بشار اسد نے لکھا ہے کہ میں نے کبھی بھی اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور ملک اور اس کے ارکان کے دفاع کے لیے آخری لمحے تک عوام پر بھروسہ کیا۔
بشار اسد سے منسوب اس بیان میں آیا ہے کہ جب حکومت دہشت گردوں کے ہاتھوں گرا دی جائے اور کچھ نہ کیا جاسکے تو منصب چھوڑنا پڑتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شام اور اس کے عوام سے قومی وابستگی کو چھوڑ دیا گیا ہو، کیونکہ یہ وابستگی اٹوٹ ہے اور اس سے امیدیں وابستہ ہیں۔ آزادی اور خودمختاری کی جانب شام کی واپسی کی امید۔
قابل ذکر ہے کہ مسلح گروہوں نے 8 دسمبر کو دمشق پر قبضہ کرلیا تھا۔ اسی دن بشار اسد کے ملک سے نکل جانے کی خبر بھی منظر عام پر آگئی تھی۔