Dec ۰۵, ۲۰۲۵ ۱۹:۰۳ Asia/Tehran
  • یاسر ابو شباب ، فلسطینی غدار کی پر اسرار موت اور صیہونی خواب چکناچور

جنوبی غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کے ایجنٹ سمجھے جانے والے "یاسر ابو شباب" کی پراسرار موت کا معاملہ گرم ہوتا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں بہت سے سوالات اٹھ رہے ہيں۔

سحرنیوز/عالم اسلام:   یاسر ابو شباب کے قتل کے سلسلے میں بہت سی قیاس آرائیاں سامنے  آ رہی ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ  "حماس" نے اسے اور اس کے گروپ کے افراد کے لیے  اپنی ایک مہم کے تحت گھات لگا کر اسے قتل کیا، جبکہ دیگر بیانات میں کہا گیا ہے کہ وہ غزہ پٹی کے جنوبی شہر رفح میں قبائلی جھڑپوں میں مارا گیا، جبکہ کچھ اور کا کہنا ہے کہ  اس کی اتنی پٹائی کی گئی کہ وہ مر گيا۔

ان متضاد روایات کے دوران ،  یاسر ابو شباب  کے گروہ کے افراد نے اعلان کیا کہ یاسر ابو شباب کی، ابو سنیمہ خاندان کے افراد کے درمیان تنازعہ  کو ختم کرنے کے دوران  گولی لگنے سے موت واقع ہوئی۔ اس گروہ نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ یاسر ابو شباب کی موت کے پیچھے حماس کا ہاتھ ہے۔

اسی طرح،اس گروہ  نے ابو شباب کے جلوس جنازہ  کی کلیپس بھی نشر کی تھیں جن میں بہت سے حامی اس کی لاش کو محاصرے میں لئے تھے۔

 

یروشلم پوسٹ نے  بھی اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ حماس مخالف  اس گروپ کے کمانڈر کو قبائلی جھگڑے میں قتل کیا گیا، نہ کہ "حماس" کے عناصر کے ہاتھوں۔

یاد رہے کہ ابو شباب کا گروہ مشرقی رفح میں اسرائیلی فوج کے کنٹرول والے علاقوں میں سرگرم ہے اور امریکی تجویز کے بعد جنگ بندی کے بعد سے یہ گروہ کچھ زيادہ ہی سرگرم ہو گيا تھا ۔

 

گذشتہ جون میں، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے  غزہ میں قبائل کی جانب سے  اسرائیل کی حمایت کا انکشاف کیا تھا اور ان میں ابو شباب کے گروہ  کا بھی خاص طور پر نام لیا گيا تھا  انہوں نے کہا کہ " ابو شباب نے اسرائیلی فوجیوں کی جان بچائی"، حالانکہ کچھ اسرائیلیوں نے اس پالیسی پر تنقید بھی  کی تھیاور کہا تھا  کہ ایسے گروہ حماس کا حقیقی متبادل نہیں ہو سکتے  کیونکہ حماس 2007 سے غزہ پر کنٹرول رکھتی ہے۔

 

ابو شباب کے قتل کے بعد غزہ میں اسرائیل نواز ملیشیا کے نئے رہنما غسان الدهینی نے حماس  کو اس کے خلاف جنگ جاری رکھنے کی دھمکی دی ہے۔

الدهینی نے عبرانی اخبار  وائی نیت  سے کہا ہے : "ان شاء اللہ، اور میرے بھائی یاسر کی منصوبہ بندی کے مطابق، ہم بالکل وہیں ہوں گے جہاں ہم تھے، بلکہ زیادہ مستقل مزاجی اور طاقت کے ساتھ۔ آخری دہشت گرد تک  جنگ لڑتے رہیں گے۔"

الدهینی نے مزید کہا: "آج حماس  اس حقیقت کو دیکھے گي  جسے  اسے بہت پہلے سے دیکھنا چاہیے تھا۔ ہم انہیں دکھائیں گے کہ ہم  موجود ہیں اور ہم ہرحریت پسند کے لیے امید کا ذریعہ ہیں، ہر اس شخص کے لیے جو اس دہشت گرد گروہ کے خاتمے کا منتظر ہے۔"

واضح رہے فلسطین میں جو تیز تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان سے غزہ میں من پسند نظام قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں کی ناکامی جھلکتی ہےاور "ابو شباب" کے کردار کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی اب یہ  واضح ہو رہا ہے کہ  ایک  اور اسرائیلی منصوبے  کا خاتمہ ہو رہا ہے جس کا مقصد مقامی ایجنٹوں  کی مدد سے غزہ پر تسلط مضبوط کیا جا سکے اور وہاں اپنی حکمرانی قائم کی جا سکے۔

 

سیاسی تجزیہ نگار ایاد القرا کا خیال ہے کہ یاسر ابو شباب کا خاتمہ، اس کے مختلف  تناظر کے ساتھ، غزہ پٹی کے اندر مقامی زر خرید ایجنٹوں کی مدد سے  تسلط قائم کرنے کے اسرائیلی منصوبے  کا بھی  خاتمہ ہو گيا۔  وہ کہتے ہیں کہ غاصب صیہونی حکومت نے گزشتہ کئی برسوں سے ایسے گروپ تشکیل دینے کی کوشش مسلسل کی  ہیں  جو فلسطینیوں کے قومی موقف سے ہٹ کر کام کرتے رہے ہيں اور جن کا مقصد اسرائيلی مفادات کا تحفظ رہا ہے اور انہیں صیہونی حلقے ، قوم پرست شدت پسند فلسطینیوں سے الگ اور صاف ستھرے فلسطینی کا عنوان دیتے  رہے ہیں۔

القرا نے اس بات  پر زور دیا ہے کہ  یہ منصوبہ تین اہم عوامل کی وجہ سے تیزی سے  ناکام ہو گیا:  ایک تو یہ کہ اس طرح کے اسرائيل حامی گروہوں کو فلسطین میں سماجی حمایت نہيں حاصل ہو پائی۔ اس کے علاوہ غزہ کے قبائل ایسی کسی بھی کوشش کے حامی نہيں ہیں جن سے غزہ پٹی میں متبادل اٹھارتی کی تشکیل ہو جائے۔ اس کے ساتھ ہی مزاحمتی تنظیموں میں بھی اتنی طاقت ہے جو وہ کسی بھی اس طرح کے گروہ کو پنپنے نہ دے۔

ان کی رائے میں ابو شباب کا خاتمہ محض ایک عارضی واقعہ نہیں ہے، بلکہ ایک پوری راہ  کا خاتمہ ہے جس پر چل کر غاصب صیہونی حکومت مقامی ایجنٹوں کے ذریعے غزہ  میں حکومت کی امید رکھتی تھی۔

انہوں نے کہا : پیغام واضح ہے غزہ تقسیم نہیں ہوگا، اور فلسطینی قومی آشتی  ہر طرح کے مداخلت کی کوششوں کے سامنے بہت زیادہ مضبوط ہے  اور وہاں ایجنٹوں کی مدد  کی بنیاد پرتیار کیا جانے والا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہيں ہوگا۔

 

بہرحال "ابو شباب" کے قتل کا واقعہ غزہ پٹی کے اندر  صیہونی حکومت سے وابستہ گروہوں  کے بارے میں رویہ کے سلسلے میں  اسرائیلی تشویش کی حقیقت بھی واضح کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی  غزہ میں  "متبادل طاقت" بنانے کے غاصب صیہونی حکومت کے منصوبے کا کھوکھلا پن بھی ثابت ہوتا ہے جبکہ اسرائیلی حکام کو امید تھی کہ اس طرح کے گروہ ، حماس کا متبادل ثابت ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائيلی ریڈیو نے ایک ایک بڑے سیکورٹی ذریعے کے حوالے سے کہا کہ ابو شباب کا قتل "اسرائیل کے لیے ایک برا واقعہ" ہے۔

 

ہمیں فالو کریں: 

Follow us: FacebookXinstagram, tiktok

در اصل "ابو شباب" غزہ پٹی کے جنوبی شہر رفح میں موجود تھا، اور وہ اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کر رہا تھا جس کی وجہ سے صیہونی حکام کو اس سے  بڑی امیدیں باندھی تھیں اور وہ حماس سے ہٹ کر غزہ پٹی کی انتظامیہ کے لیے رفح میں ایک ماڈل قائم کرنے کے لیے اس پر انحصار کر رہے تھے۔

یاسر ابو شباب ایک فلسطینی تھا جو 1990 میں غزہ پٹی کے جنوبی شہر رفح میں پیدا ہوا اور 7 اکتوبر 2023 سے پہلے تک  مجرمانہ کارروائيوں کے لئے قید تھا لیکن  پھر بمباری کے بعد اسے رہا کر دیا گیا تھا جس کے بعد اس نے صیہونی فوج کے ساتھ تعاون شروع کیا اور اس کے لئے باقاعدہ ایک گروہ کی تشکیل دیا جس کے پاس جدید ترین اسلحے تھے اور وہ مزاحمتی تنظیموں کے خلاف سرگرم عمل ہو گیا اور خاص طور پر ان علاقوں میں زیادہ سرگرم رہتا جہاں صیہونی فوجی حملے کرکے قبضہ کر لیتے تھے ۔

(رای الیوم سے ماخوذ) 

ٹیگس