مصنوعی ذہانت کے استعمال اور سماجی زندگی پر اس کے اثرات کے بارے میں لندن میں نشست
اسلامک اسکالرز، کمپیوٹر اور الیکٹرانکس انجینئرز، پادریوں، ماہرین الہیات اور سیاسی ماہرین نے لندن میں ہونے والی ایک میٹنگ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے پہلوؤں اور سماجی زندگی پر اس کے اثرات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے-
سحر نیوز/ سائنس و ٹیکنالوجی: لندن کے ابرار تھنک ٹینک میں منعقد ہونے والی اس ایک روزہ نشست میں ماہرین نے مصنوعی ذہانت کے انسانیت پر پڑنے والے اثرات، انسان کی جگہ مصنوعی ذہانت کے جاگزین ہونے سے لاحق تشویش، عالم بشریت کے لئےمصنوعی ذہانت کے فوائد و نقصانات اور خطرات اور یہ کہ نئی ٹیکنالوجیز کے دور میں اخلاقیات، آزادی اور معنویت جیسے مسائل کے ہوتے ہوئے انسانی معاشرہ اور مذہبی افراد مصنوعی ذہانت کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہوسکتے ہیں ،جیسے مسائل پر گفتگو کی-
اس نشست میں اسکاٹ لینڈ یونیورسٹیوں سے وابستہ کارنیگی فاؤنڈیشن کی سی ای او ڈاکٹر ایو پول، پادری ڈاکٹر ندیم نثار اور ایوارنس فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر علی پویا نے مصنوعی ذہانت، اس ٹیکنالوجی کے مستقبل، اور نئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ مذہبی لوگوں کے باہمی تعامل کے بارے میں بات کی۔
ڈاکٹر ٹم بال نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کبھی بھی انسانوں کی خداداد خصوصیات اور صلاحیتوں منجملہ تخلیقی صلاحیت، عبادت کرنے کی صلاحیت، ہمدردی اور سیکھنے کی صلاحیت کی جگہ نہیں لے سکتی کیونکہ مصنوعی ذہانت صرف ان حقائق پر انحصار کرتی ہے کہ جن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اورتمام علوم پر محیط نہیں ہے۔
دوسرے لفظوں میں، مصنوعی ذہانت کا نقطہ نظر سائنٹسٹیک ہے نہ کہ سائنٹیفک، اور اس کا انسانی ذہانت سے موازنہ کرنا مصنوعی پھولوں کا حقیقی پھولوں سے موازنہ کرنے کے مترادف ہے۔
لندن میں ابرار تھنک ٹینک میں ہونے والی نشست کے ہی تسلسل میں جمہوریہ چیک کے پراگ شہر میں واقع چارلس یونیورسٹی میں پریسبیٹیرین تھیالوجی فیکلٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فرانٹیزیک اسٹیک نے ایک ویڈیو کانفرنس میں مصنوعی ذہانت کی اہمیت کے بارے میں بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ مصنوعی ذہانت اب تک صرف انسانوں کی نقل کرتی تھی لیکن اب انسانوں نے مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹر کی نقل کرنا شروع کر دیا ہے ۔
انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عیسائیوں سمیت سبھی مذہبی لوگوں کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے کیونکہ عیسائیت کے اصولوں کے مطابق عیسائیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تقلید کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر اسٹیک نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت نے بنی نوع انسان کے مستقبل کو دھندلا دیا ہے، اور یہ مسئلہ ہمارے لیے خوف اور پریشانی کا باعث بنا ہے-
قرآن ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لیث کبّا نے بھی کہا کہ اگرچہ مصنوعی ذہانت بھی، جوہری توانائی طرح خطرات پیدا کر سکتی ہے، بنابریں اس کے لئے بھی ضابطے وضع کئے جانے کی ضرورت ہے۔