مخلتف ممالک سے تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی ایک اور کشتی اٹلی کے ساحل کے قریب چٹانوں سے ٹکرا کر ڈوب گئی جس کے نتیجے میں چند بچوں سمیت کم از کم انسٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔
ایران کے خلاف یورپ اور برطانیہ کی مسلسل الزام تراشیوں اور ایران پر عائد لندن کی نئی پابندیوں کے پیش نظر تہران میں برطانوی ناظم الامور ایزابل مارش کو وزارت خارجہ میں طلب کرلیا گیا۔
ایک یورپی تحقیقی ادارے نے بحیرۂ روم کے ذریعے یورپ پہنچنے کے خواہشمند پناہ گزینوں کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق گزشتہ چار برسوں کے دوران 8 ہزار تارکین وطن ڈوب کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ایران کی قومی سلامتی کی اعلی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے ماسکو میں علاقائی سلامتی کے بارے میں مذاکرات کے لئے منعقدہ پانچویں نشست سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ افغانستان میں بیرونی مداخلت علاقے میں بدامنی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
غیرملکی مہاجرین اور پناہ گزینوں کے سلسلے میں امریکہ کی سابق ٹرمپ حکومت کی سخت پالیسیوں کا شکار ہزاروں بچوں میں سے اب بھی پچیس فیصد اپنے ماں باپ سے دور ہیں۔
یونانی کوسٹ گارڈز نے 20 افراد کی لاشیں سمندر سے نکالی ہیں جو غیر قانوی طور پر یونان میں پناہ حاصل کرنے کی غرض سے کشتی میں سوار ہو کر اُس کے ساحل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کشتی میں 70 افراد سوار تھے جن میں سے بیشتر ابھی تک لاپتہ ہیں۔
شام کے بحری حدود میں ڈوبنے والی کشتی میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر ستاسی تک پہنچ چکی ہے۔
یونانی ساحل کے قریب تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوبنے سے 50 افراد لاپتہ ہوگئے تاہم 29 کو بچا لیا گیا۔
اقوام متحدہ نے اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان کے علاقے سرپل میں ستائیس ہزار سے زائد افغان شہری دربدری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے امور میں اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ یوکرین پر روسی فوج کے حملے کے بعد سے اب تک 35 لاکھ سے زائد لوگ اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔