یورپی یونین نے روس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کردیں
روس کے خلاف جوابی حملوں میں یوکرین کے شکست کھانے کے بعد یورپی یونین کے ارکان نے ماسکو کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے سے اتفاق کیا ہے اور مزید اکہتر افراد اور تینتیس اداروں کو ان پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
سحرنیوز/دنیا: یوکرین نے اس سے قبل روس کے خلاف جوابی حملوں کے سلسلے میں مختلف وعدے کرکے مغرب سے وسیع مالی اور فوجی مدد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، اب وہ روس کی فولادی دیوار کے سامنے رک گیا ہے اور امریکہ کی سرکردگی میں یوکرین کے حامی ممالک اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے روس کے خلاف مزید نئی پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اعتراف کیا ہے کہ روسی فوجیوں کے خلاف جوابی حملے میں توقع سے کم پیشرفت ہو رہی ہے۔
زیلنسکی کا یہ بیان لندن میں یوکرین کے بارے میں ہونے والی ایک کانفرنس کے موقع پر سامنے آیا ہے کہ جہاں پر یوکرین کو اقتصادی مدد دینے اور اس کی تعمیرنو کے لیے وعدے کیے جائیں گے۔
امریکہ نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کو ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی امداد دے گا لیکن یوکرین کے وزیراعظم ڈینس شمیہال نے امید ظاہر کی ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک یوکرین کو چھے ارب ڈالر سے زیادہ کی مدد فراہم کریں گے۔
یوکرین کی وزارت دفاع کے ترجمان آندرے یونوسوف نے بھی اس ملک کے آرمی انٹیلی جنس کمانڈ سینٹر پر حملے پر مبنی رپورٹوں کے بارے میں اپنے اولین ردعمل میں کہا ہے کہ یہ سینٹر روسی حملے کا نشانہ بنا ہے۔
یورپی یونین نے بدھ کے روز گیارہویں بار روس پر پابندیاں عائد کی ہیں جن کے تحت روس سے ٹیکنالوجی اور اشیا کی ٹرانزٹ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
ان نئی پابندیوں میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ان میں کسی تیسرے ملک کو ایسی حساس ٹیکنالوجی اور آلات جو کثیرالمقاصد ہیں، فروخت کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے کہ جن کے بارے میں امکان ہے کہ کہیں وہ اسے روس کو نہ بیچ دیں۔
یورپی یونین کے حکام کو تشویش ہے کہ آرمینیا، قزاقستان اور قرقیزستان جیسے روس کے ہمسایہ ممالک یا چین ترکی اور امارات جیسے ممالک میں ان اشیا کی طلب میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب نیٹو کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ کے موقع پر یوکرین کی نیٹو میں رکنیت کی مخالفت کے باوجود فرانس اور برطانیہ، یوکرین کی نیٹو میں فوری رکنیت کے حامل ہیں۔
مغربی ممالک ایک ایسے وقت میں یوکرین میں جنگ جاری رہنے کی حمایت کر رہے ہیں کہ جب روس کے نائب صدر ولادیمیر مدینسکی نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ یوکرین دو ہزار بائیس میں روس کے ساتھ ایک پرامن راہ حل کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن مغرب نے دونوں ملکوں کے مذاکراتی عمل میں خلل ڈال دیا۔
اس سے قبل روس کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری نکولائی پیٹروشف نے بھی کہا تھا کہ یوکرین کے اعلی حکام روس کے ساتھ تنازعہ کو حل کرنے اور امن معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار تھے لیکن امریکی دباؤ کی وجہ سے انھوں نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔