یوکرین کے صدر نے روس کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرنے کا عندیہ دے دیا
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ اگر کی ایف کو امریکی امداد نہ پہنچی تو اس ملک کی فوج روس کے مقابلے میں پسپائی پر مجبور ہوجائے گی۔
سحر نیوز/ دنیا: واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں جو جمعے کی رات کو شائع ہوا یوکرین کے صدر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ اگر امریکا نے تعاون نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوکرین دفاع سے محروم رہ جائے گا، کیوں کہ یوکرین کے پاس پیٹریاٹ میزائل، الیکٹرانک جامنگ کے آلات اور ایک سو پچپن ملی میٹر آرٹیلری گولے نہیں ہیں ۔
یوکرینی صدر نے کہا کہ اس صورت میں فوج قدم بہ قدم پسپائی اختیار کر لے گی اور واپس لوٹ آئے گی، اس لئے ہمیں پسپائی کی روک تھام کے کوئی راہ حل تلاش کرنی چاہئے۔
دریں اثنا الگزنڈر سیرسکی نے کہ جنہیں حال ہی میں یوکرینی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا ہے کہا ہے کہ روس کے پاس فرنٹ لائن پر یوکرینی افواج سے چھ گنا طاقتور فوج ہے اور فوجی طاقت کی یہ برتری، ہلاکتوں کا سبب اور ہمیں ہمارے مواقف سے پیجھے ہٹنے کی باعث ہے۔
یوکرین نے امریکی کانگریس سے کہا ہے کہ وہ کی ایف کے لیے ساٹھ ارب ڈالر کے فوجی امدادی پیکج کی منظوری دے۔
امریکہ کے وزیر جنگ لائیڈ آسٹین نے ایسے میں جبکہ کی ایف کو دیا جانے والا امدادی پیکج امریکی کانگریس کی مخالفت کی وجہ سے روک دیا گیا ہے کہا کہ امریکہ یوکرین کو جنگ ہارنے نہیں دے گا۔
واضح رہے کہ ریپبلکنز کے زیر انتظام ایوان نمائندگان نے یوکرین کے لیے ساٹھ ارب ڈالر کی امداد کو روک دیا ہے اور جو بائیڈن کی انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ تین سو ملین ڈالر کا تازہ ترین پیکج صرف چند ہفتے ہی چلے گا۔
دوسری جانب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ یوکرین کی مجوزہ امن کی پیشکش بے نتیجہ ہے کہا کہ یہ منصوبہ ناقابل قبول مفروضوں پر مبنی ہے، کیوں کہ اس میں ماسکو کا مقبوضہ علاقوں سے انخلاء بھی شامل ہے۔
روسی اخبار ایز وستیا کے ساتھ انٹرویو میں جو جمعے کو شائع ہوا، روس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ بہرحال، ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے مجوزہ امن منصوبے کی بنیاد پر نہیں۔
خیال رہے کہ یوکرین میں جنگ، مغرب کی جانب سے ماسکو کے سیکورٹی خدشات سے عدم توجہی اور روس کی سرحدوں تک نیٹو افواج کی توسیع کی وجہ سے شروع ہوئی۔ روسی صدر ولادیمیر پوتین نے اکیس فروری دوہزار بائیس کو ڈونباس کے علاقے میں ڈونیسک اور لوہانسک عوامی جمہوریاؤں کی آزادی کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا اور تین دن بعد انہوں نے ایک فوجی آپریشن شروع کیا جسے اس نے یوکرین کے خلاف خصوصی آپریشن کا نام دیا