کیریبین سی میں امریکی نقل و حرکت کے مقاصد
کوکین کی جنگ یا تسلط کی کشمکش یا پھر ایران کا خوف
وینزوئیلا کے صدر نکولس مادورو نے امریکہ کی جانب سے طیارہ بردار بحری جہاز بھیجے جانے کے بیان پر اپنے رد عمل میں کہا کہ امریکہ ایک نئی جنگ چھیڑنے کے درپے ہے لیکن ہم جنگ نہیں ہونے دیں گے۔
سحرنیوز/دنیا: گزشتہ ہفتوں کیریبین کے خطے میں امریکی طیارہ بردار جہاز 'جیرالڈ آر فورڈ' کی تعیناتی اور امریکی میرین کور کمانڈر کی جانب سے "ایک نئی جنگ کی تیاری" کے بیان نے وینزویلا میں براہِ راست تصادم کے خدشات کو ہوا دے دی ہے۔ ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ اس آپریشن کا مقصد منشیات کی اسمگلنگ کے راستوں کو بند کرنا ہے لیکن درحقیقت امریکا کے لئے منشیات کی اسمگلنگ کا اصل راستہ وینزویلا نہیں بلکہ وسطی امریکا ہے۔ یہ واضح تضاد اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ واشنگٹن ایک بار پھر مداخلت کے اس ڈرامے کو دہرا رہا ہے جو ہمیشہ اخلاقی نعروں سے شروع ہو کر انسانی بحرانوں پر منتج ہوتا ہے۔
ہتھیاروں کا ذخیرہ: پابندیاں، اشتعال اور نفوذ
کاراکاس کو زیر کرنے کے لیے واشنگٹن سیاسی، معاشی اور نفسیاتی ہتھکنڈوں کا ایک بڑا ذخیرہ استعمال کر رہا ہے۔ سرکاری شخصیات پر مالی پابندیاں اور سخت تجارتی پابندیاں اسی دباؤ کا حصہ ہیں۔ سیاسی سطح پر 'ماریا کورینا ماچاڈو' جیسی مغرب نواز تحریکوں کی حمایت کا مقصد ملک میں داخلی تقسیم پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے کھلے عام وعدہ کیا ہے کہ "وہ وینزویلا کی معیشت کو ریاست سے الگ کر کے عالمی بازار سے جوڑ دیں گی"۔ امریکی میڈیا مادورو حکومت کی ناکامی کا پروپگنڈہ کرکے عوامی رائے کو قومی حکومت کے خلاف بھڑکا رہا ہے۔ سختی اور نرمی کے اس امتزاج میں عراق اور لیبیا میں کی گئی امریکی مداخلت کی ہی جھلک نظر آتی ہے۔
کاراکاس سے بیونس آئرس تک: زمین کے جنوبی حصے پر امریکی تسلط کی کوشش
امریکا کا ہدف محض وینزویلا تک محدود نہیں۔ خودمختار حکومتوں کے عروج اور برکس میں شامل ہونے والے ممالک کی وجہ سے لاطینی امریکا ، اب امریکا کے روایتی کنٹرول سے باہر ہو گيا ہے اسی لئے اپنی بالادستی بحال کرنے کے لیے واشنگٹن ایک وسیع تر منصوبہ پر عمل پیرا ہے۔ ایکواڈور اور ارجنٹائن میں فوجی دستے تعینات کرنے سے لے کر برازیل اور کولمبیا پر معاشی پابندیاں عائد کرنا، یہ سب جنوبی نصف کرہ میں 'امریکی ورلڈ آرڈر' کی بحالی کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ نے وینزویلا کو 'امریکی کمپنیوں کے لیے زبردست موقع' قرار دیا ہے اور یہ یک ایسا بیان ہے جو کسی بھی سیاسی تجزیہ سے زیادہ اس مداخلت کے معاشی اور اسٹریٹجیک مقاصد کو عیاں کرتا ہے۔
لاطینی امریکا میں واشنگٹن اور تل ابیب کا خفیہ اتحاد
وینزویلا میں امریکی نقل و حکرت کا صہیونی حکومت کے مفادات سے واضح تعلق ہے۔ 'ماچادو' اور 'نتین یاہو' کے درمیان حالیہ ٹیلیفونی رابطے سے یہ ظاہرہو گیا کہ لاطینی امریکا میں اسرائیل مخالف تحریکوں کو کمزور کرنے کے منصوبے میں واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان تعاون جاری ہے ۔
در اصل یہ خطہ فلسطین کا دیرینہ حامی رہا ہے اور یہاں عدم پائیداری صہیونیت مخالف عالمی محاذ کو کمزور کر سکتا ہے۔ امریکی وزیر جنگ نے بھی واضح کیا ہے کہ واشنگٹن کا بنیادی ہدف خطے میں چین، روس اور ایران کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔
تاہم، خودمختار حکومتوں کے اتحاد اور عوامی حمایت امریکا کے تسلط کے اس منصوبے کو ناکام بنا سکتی ہے۔
(نور نیوز فارسی سے ماخوذ)