ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس اختتام پذیر
جی 20 کا سربراہی اجلاس نئی دہلی میں منعقد ہوا اور آج اجلاس کا دوسرا اور آخری دن تھا۔ اس سے پہلے گروپ بیس نے روس کا نام لئے بغیر، جنگ یوکرین کے خاتمے کے لئے انجام دی جانے والی تعمیری کوششوں سے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔
سحر نیوز/ ہندوستان: ہندوستانی حکام اجلاس کو انتہائی کامیاب بتارہے ہیں، غیر ملکی رہنماؤں اور سربراہوں نے بھی ہندوستان کی میزبانی کی تعریف کی تاہم یورپ اور امریکہ جی 20 کے ذریعے روس یوکرین جنگ کے حوالے سے جس طرح کا اعلامیہ جاری کرانا چاہتے تھے وہ اس میں ناکام رہے۔
اس اجلاس کے اعلامیہ میں جو کل ہی جاری کردیا گیا تھا وہ لب و لہجہ روس کے بارے میں نہیں تھا جو بالی اجلاس میں دیکھنے کو ملا تھا۔
اسی لئے ہندوستانی وزیرخارجہ نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بالی بالی تھا اور دہلی دہلی ہے اس طرح ہندوستان نے روس کے ساتھ اپنی دوستی پر کسی طرح کا حرف نہ آنے دیا اور روس اور یوکرین جنگ کا بھی ذکر ہوگیا۔
گروپ بیس کے اجلاس کے اعلامیہ میں جو اس اجلاس کے اختتام سے پہلے ہی جاری کیا گیا، اجلاس کے شرکا نے اعلان کیا کہ جنگ یوکرین ختم اور اس ملک میں قیام امن کے لئے تمام تعمیری کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔
گروپ بیس نے اپنے اعلامیہ میں اشارتا جنگ یوکرین پر تنقید کرتے ہوئے اس ملک کی سرحدوں میں تبدیلی کی مخالفت اور اس ملک میں طاقت کا استعمال کئے جانے کی مذمت بھی کی۔
گروپ بیس کے ارکان نے تاکید کی کہ تمام ملکوں کو کسی بھی آزاد ملک کے کسی علاقے کو قبضانے اور اس مقصد کے لئے طاقت کے استعمال اور کسی بھی ملک کی ارضی سالمیت اور قومی اقتدار اعلی نیز سیاسی آزادی کی مخالفت میں کسی بھی طرح کا اقدام کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
گروپ بیس کے رکن ملکوں نے اجلاس کے اعلامیہ میں گزشتہ سال کے انڈونیشیا کے اجلاس کے روس مخالف بیان کے برخلاف ، یوکرین جنگ کے بارے میں آغاز کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا۔
واضح رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوتن اس سال کے گروپ بیس کے نئی دہلی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اور ان کی جگہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اجلاس میں روس کی نمائندگی کی۔
گروپ بیس میں امریکہ، فرانس، جرمنی، چین، روس، انڈونیشیا، ترکیہ، ارجنٹائن، ہندوستان، جنوبی افریقہ، برطانیہ، اٹلی، جاپان، سعودی عرب، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، جنوبی کوریا، میکسیکو اور یورپی یونین شامل ہیں۔
جبکہ افریقی یونین کو کہ جس میں اس براعظم کے پچپن ممالک شامل ہیں، گروپ بیس کے نئی دہلی سربراہی اجلاس میں رکنیت دینے کا اعلان کیا گیا۔
عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ جی 20 کے اجلاس سے امریکہ اور یورپ کو مایوسی حاصل ہوئی ہے جو یہ چاہتے تھے کہ اجلاس میں روس مخالف سخت بیان جاری کیا جائے لیکن روس نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اس طرح کے کسی بھی بیان پر دستخط نہیں کرے گا اور یوں یہ اجلاس امریکہ اور یورپ کی سفارتی کوششوں کے لحاظ سے مغرب کے لئے مایوس کن رہا جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اقتصادی طاقت کے ساتھ ساتھ اب سفارتی اور سیاسی طاقت بھی مغرب سے مشرق کی جانب شفٹ ہورہی ہے۔