Apr ۲۲, ۲۰۲۵ ۱۷:۵۴ Asia/Tehran
  •  وقف قانون کا مسئلہ کسی بھی صورت میں ہندو-مسلم مسئلہ نہیں، وقف قانون  کے تعلق سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں

دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر انتظام ’تحفظ اوقاف کانفرنس‘ منعقد کی جا رہی ہے۔ اس کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مسلم تنظیموں کے نمائندے اور دانشور شرکت کر رہے ہیں۔ اس موقع پر وقف ترمیمی قانون 2025 کی سخت مخالفت کی گئی اور اسے مکمل طور پر رد کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

سحرنیوز/ہندوستان:  تحفظ اوقاف کانفرنس کے سلسلہ میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بیماری کی وجہ سے شرکت نہ کر سکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ وقف کی حفاظت کی لڑائی ہے، جو دراصل ہماری بقا کی لڑائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون 2025 درحقیقت مذہب میں براہ راست مداخلت ہے اور مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن شریعت میں مداخلت کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا، ’’یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چیز ہماری ہو اور رکھوالی کوئی اور کرے؟ وقف کو بچانا ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ یہ قانون آئین، جمہوریت اور سیکولرزم کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔‘‘

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی

مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ وقف قانون کے خلاف پوری ملت، تمام ملی تنظیمیں اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں متحد ہو ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر ہم اجتماعی شعور اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں، تو ہمیں کوئی بھی حکومت نظر انداز نہیں کر سکتی۔ انہوں نے ملک میں آئینی اداروں کی کمزوری اور جمہوری قدروں کے زوال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک میں جو یکطرفہ سیاست کی جا رہی ہے، وہ آئین کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئین کی بالادستی ختم ہو گئی تو جمہوریت کا وجود بھی باقی نہیں رہے گا۔

ممتاز شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد

مولانا مدنی نے تاکید کی کہ وقف قانون کا مسئلہ کسی بھی صورت ہندو-مسلم مسئلہ نہیں بننے دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی فرقہ پرستی اور سیکولرزم کے درمیان ہے۔ وقف سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے تاکہ اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے خلاف نہ کھڑا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ جمعۃ علماء ہند نے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ عدالت کی جانب سے بعض دفعات پر روک لگانا خوش آئند ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اس سے پہلے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ تال کٹورہ انڈور اسٹیڈیم میں منعقدہ تحفظ اوقاف کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدارتی خطاب میں کہا کہ وقف قانون  کے تعلق سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے لوگ کہتے ہیں کہ وقف قانون کا مذہب سے تعلق نہیں ہے، تو پھر مذہبی قیدوبند کیوں لگائی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ وقف قانون کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے، لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کوئی بھی نکات یا پہلو بتا دیجیئے جس سے غریبوں کو فائدہ ہوسکتا ہو۔یہ قانون کسی بھی طرح سے غریبوں کے حق میں نہیں ہے۔ہمیں احتجاج کرنا ہے، یہ ہمارا جمہوری حق ہے، لیکن احتجاج پرامن ہونا چاہئے۔ ہماری صفوں میں لوگ گھس کر امن وامان کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اس سے محتاط رہنا ہے۔

 

ٹیگس