ایران کے خلاف پابندیاں ظالمانہ اور یورپ و امریکہ کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے: صدر رئیسی
ایران کے صدر نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کی پہلی ترجیح ہمسایہ ممالک کےساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے گزشتہ شب ایک ٹی وی پروگرام میں عوام سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ پابندیوں کو بائی پاس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پابندیاں ظالمانہ اور بورڈ آف گورنرز میں ایران مخالف قرارداد پیش کرنے والے یورپ اور امریکہ کے وعدوں کے برخلاف ہیں۔
ایران کے صدر نے کہا کہ امریکہ اور یورپ کی جانب سے ایران مخالف قرارداد پیش کرنے کا عمل اچھا نہیں تھا اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے اپنی 15 رپورٹوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے پر امن ایٹمی پروگرام کی تصدیق کی ہے۔
سید ابراہیم رئیس نے ایرانی وزیر خارجہ اور جوزپ بورل کے درمیان ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم وقار اور عزت پر مبنی مذاکرات کے عمل کو جاری رکھیں گے۔
صدر رئیسی کا کہنا تھا کہ ایران مذاکرات ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا لیکن اپنے موقف سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ظالمانہ پابندیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور یہ کہ تمام پابندیاں فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔صدر ایران کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات کے ساتھ ساتھ ، پابندیوں کو غیر موثر بنانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔
سید ابراہیم رئیسی نے، مذاکراتی عمل کے دوران، بورڈ آف گورنرز میں ایران کے خلاف قرارداد کی منظوری کو سراسر غلط قرار دیا اور یہ بات زور دے کر کہی کہ آئی اے ای اے نے پندرہ بار اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں میں کوئی انحراف نہیں پایا جاتا۔صدر ایران نے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعاون کے بارے میں کہا کہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعاون ہماری خارجہ پالیسی میں سرفہرست ہے، دنیا کے اٹھارہ ملکوں کے ساتھ ہمارے معاہدے ہیں اور ہم انہیں ڈھائی ارب ڈالر کی فنی اور انجینیئرنگ خدمات فراہم کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پچھلے تین ماہ کے دوران ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تجارت میں بیس فی صد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ پابندیوں کے باوجود تیل کی برآمدات میں بھی بہتری آئی ہے۔سید ابراہیم رئیسی نے تیل کی آمدنی کے بارے میں کہا کہ، اس وقت تیل کی فروخت اچھی جا رہی ہے جبکہ ہم تیل اور دیگر اشیا کی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کی منتقلی کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
صدر ایرا ن نے کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا ہے اور پانچ سے بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر اتفاق ہو چکا ہے۔قابل ذکر ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے لیے ایران اور چار جمع ایک گروپ کے درمیان مذاکرات کا آٹھواں دور ستائیس دسمبر دو ہزار اکیس کو شروع ہوا تھا اور گیارہ مارچ کو، یورپی یونین کے خارجہ پالیسی چیف کی اس تجویز پر اس میں وقفہ دیا گیا تھا کہ مذاکراتی وفود کو ضروری صلاح ومشورے کے لیے اپنے اپنے ملکوں کو لوٹنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ ایران کے بارے میں سفارت کاری سے کام لینے اور ایٹمی معاہدے میں واپسی کا دعوی تو کر رہی ہیں لیکن تاحال ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے اس کی نیک نیتی ثابت ہوتی ہو۔ ویانا مذاکرات کے تمام شرکا، بات چیت کی تکمیل کے خواہاں ہیں لیکن کسی بھی سمجھوتے کا حصول، باقی ماندہ اہم اور کلیدی معاملات پر ، امریکہ میں سیاسی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں پر ٹکا ہوا ہے۔
اس پس منظر میں، یورپی یونین کے خارجہ پالیسی چیف ہفتے کو تہران آئے تھے اور ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللھیان کے ساتھ ملاقات اور چار گھنٹے تک بات چیت کی۔ اس طویل ملاقات کے بعد جوزف بورل کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں تعطل کو دور کرنا اور بات چیت کا دوبارہ آغاز ان کے دورے کا مقصد ہے۔