Nov ۱۶, ۲۰۲۵ ۱۳:۱۲ Asia/Tehran
  • امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے داغا گیا پہلا میزائل مذاکرات کی میز پر گرا تھا: ایرانی وزیر خارجہ

ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ مذاکرات میں وہ چیز حاصل کر لیں جو جنگ میں حاصل نہیں کرسکے تھے۔

سحرنیوز/ایران: ارنا کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے آج تہران ڈائيلاگ فورم کے زیر اہتمام "جارحیت کے دوران بین الاقوامی قانون: جارحیت اور دفاع" کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں  مہمان خصوصی کی حثیت سے شرکت کی اور ماہرین کے سوالوں کے جوابات دیئے۔

سید عباس عراقچی نے یہ پوچھے جانے پر کہ "سفارت کاری پر امریکی حملے کے پیش نظر، سفارت کاری کہاں کھڑی ہے اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کے حل کا مستقبل کیا ہے؟ اور کیا سفارت کاری مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے یا انسانی زندگی کے ایک قدیم ترین ادارے کے طور پر اب بھی تنازعات کو حل کرنے پر قادر ہے؟"   کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایران پر حالیہ فوجی جارحیت، سفارت کاری پر بھی حملہ تھا اور امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے داغا گیا پہلا میزائل در حقیقت ایران امریکہ مذاکرات کی میز پر گرا تھا۔

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ اور صیہونی حکومت اس جنگ سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ حاصل نہیں کر سکے بلکہ وہ ناکام رہے اور اگر ان کا مقصد ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنا تھا تو یہ بھی حاصل نہیں ہوا۔

سید عباس عراقچی نے کہا کہ میں اس سے پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ فضائی بمباری سے تنصیبات تباہ ہو سکتی ہیں لیکن ٹیکنالوجی تباہ نہیں ہو سکتی اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ فضائی بمباری سے قوموں کے عزم و ارادے کو بھی تباہ نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات اور سفارت کاری  کے بھی کچھ اصول و قواعد ہوتے ہیں اور ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ مذاکرات میں وہ کچھ حاصل کر لیں جو آپ جنگ میں حاصل نہیں کرسکے تھے۔

 ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ سفارت کاری اور گفت و شنید کا پہلا قدم یہ تسلیم کرنا ہے کہ مذاکرات  اور ڈکٹیشن میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مذاکرات ایک دوسرے کے مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں یکطرفہ مطالبات پر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حالات سازگار ہوں تو ایران بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے، ہم نے کبھی مذاکرات کی میز کو ترک نہیں کیا بلکہ ہمارے مخالفین مذاکرات کی میز سے فرار ہوئے۔

 

ٹیگس