Apr ۰۵, ۲۰۱۹ ۱۳:۳۰ Asia/Tehran
  • مسئلہ فلسطین اور عرب ممالک کی ذمہ داریاں / مقالہ: رای الیوم

30  مارچ کو فلسطینیوں نے تو یوم ارض منایا، مظاہرے کئے، غزہ کے علاقے میں مظاہروں کے دوران اسرائیلی فوجیوں سے ہونے والی چھڑپوں میں متعدد فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ۔ یہ فلسطینی صرف فلسطین کے لئے بر سر پیکار نہیں ہیں بلکہ یہ پوری عرب سرزمین کی حفاظت کے لئے بھی قربانیاں دے رہے ہیں ۔

اسرائیل میں سیاسی جماعتوں کے جس الائینس کی سربراہی اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کر رہے ہیں، اس کے ایجنڈے کی ترجیحات میں اسرائیل کا قیام ان سرحدوں کے مطابق کرنا ہے جن کا ذکر ان کی توریت میں ہے ۔ ان سرحدوں پر اسرائيل کی تشکیل کا مطلب ہے کہ پورا لبنان، پورا فلسطین، پورا اردن، ادھا شام، ایک تہائی سعودی عرب، دو تہائی عراق اور آدھا صحرائے سینا، اس اسرائیل کا حصہ ہوگا۔

ہمیں نہیں لگتا کہ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کو جو مذاکرات اجلاس میں شرکت کے لئے دوڑے دوڑے گئے تھے، جنہوں نے ایران کو سب سے بڑا خطرہ کہا اور اسرائیلی خطرے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولے اور جو اب تیونس میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کا ایجنڈا تیار کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے، انہیں اسرائیلیوں کے ان ارادوں کی کوئی خبر ہوگی یا انہوں نے یوم ارض اور اس دن ہونے والے مظاہروں کے شہداء کے بارے میں انہیں کچھ پتا ہوگا کیونکہ ان وزرائے خارجہ اور ان کی حکومتوں کا قریبی دوست اسرائیل ہے اور انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہيں ہے کہ اسرائیل بیت المقدس کو یہودی رنگ دے رہا ہے، اس نے شام کے علاقے جولان کی پہاڑیوں کو اپنا حصہ بنا لیا ہے اسی طرح غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے علاقے پر بھی قبضے کی تیاری میں ہے ۔

آج انہوں نے جولان کی پہاڑیوں کو اپنا حصہ کہا ہے کل وہ سعودی عرب میں خیبر کے علاقے کو، عراق میں بیبیلونیا کے علاقے کو مصر میں صحرائے سینا کے علاقے کو اپنی سرزمین کہیں گے، ان کی کوشش ہوگی کہ سارے فلسطینیوں کو فلسطین سے باہر نکال کر لبنان اور اردن میں بسا دیں ۔

بہرحال فلسطینیوں نے 30 مارچ کو یوم ارض منایا وہی اسرائیل اور امریکا کی سازشوں کے مقابلے میں مضبوطی کی علامت ہے جو عرب سرزمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہے ۔

فلسطینیوں کا واپسی مارچ، 30 مارچ 2018 سے شروع ہوا اور ہر جمعہ کو اس کا انعقاد ہوتا ہے اور 30 مارچ کو اس کی سالگرہ پر فلسطینیوں نے مظاہرے کئے، یہ مظاہرے چل رہے ہیں اور فلسطینیوں نے اپنی میزائل طاقت کا بھی مظاہرہ کر دیا ہے، یہ میزائل تل ابیت کو عبور کرکے کفر شعبا تک پہنچنے لگے ہیں ۔  ان میزائیلوں نے مقبوضہ فلسطین میں رہائش پذیر اسرائیلیوں کو بری طرح خوفزدہ کر دیا ہے یہی سبب ہے کہ جب اسرائیل نے غزہ پر حملہ یا تو اس بات کو مد نظر رکھا کہ فلسطینی شہید نہ ہوں ورنہ جواب میں ان کے میزائیل بھی اسرائیلیوں کے سر پر برسیں گے کیونکہ اسرائیل نے میزائیلوں کو فضا میں تباہ کرنے کے لئے جو میزائیل ڈیفنس سسٹم تیار کیا تھا وہ ناکام ہو چکا ہے ۔

یہی تو سبب ہے کہ جیسے ہی فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کی جھڑپ شروع ہوئی اسرائیلی وزیر اعظم فوری طور پر مصر سے جنگ بندی کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کرنے لگے ۔

سبب یہ ہے کہ نتن یاہو بھی جانتے ہیں کہ فلسطینیوں نے جس میزائل طاقت کا مظاہرہ کیا ہے وہ مضبوط ہے اور جھڑپیں جاری رہنے کی صورت میں فلسطینیوں کی مزید طاقت سامنے آئے گی ۔

اتوار کو تیونس میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں شریک ہونے والے سربراہان کو نہ تو یوم ارض کے بارے میں کچھ اطلاع ہے اور نہ ہی اس کے معنی کی دقت کا کچھ پتا ہے اور نہ ہی وہ اس بارے میں کچھ سننا چاہتے ہیں کیونکہ اسرائیل ان کا دشمن نہیں ہے وہ تو نتن یاہو سے دوستی کے لئے مچل رہے ہیں ۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے بالکل صحیح کہا تھا کہ عرب لیگ کو کم از کم یہ کرنا چاہئے کہ فلسطین کے امور میں عرب ممالک نے جو امن تجویز دی تھی اسے واپس لے لیں کیونکہ یہ تجویز اب مزاق بن کر رہ گیا ہے ۔ نتن یاہو اور دوسرے رہنماؤں نے اس کی بارہا خلاف ورزی کی ہے ۔ ہم تو کہیں گے کہ سید حسن نصر اللہ ! آپ ان لوگوں سے کچھ نہ کہئے، یہ اس قابل نہیں ہیں کہ آپ ان کو خطاب کریں، ان کا عقیدہ اسرائیل سے دوستی ہے، ان کا اصول، امریکا اور اسرائیل کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے، ان کی سب سے بڑی تمنا نتن یاہو کو خوش کرنا ہے ۔

بشکریہ

رای الیوم

 

ٹیگس