چین اور ایران کے بعد، یمن اینٹی شپ بیلسٹک میزائل رکھنے والا دنیا کا تیسرا ملک
یمنی فوج چین اور ایران کے بعد اینٹی شپ بیلسٹک میزائل رکھنے والی دنیا کی تیسری فوج بن گئی۔
چند روز پہلے یمن میں ہونے والی فوجی پریڈ کے دوران کئی نئے دفاعی ہتھیاروں کی نمائش کی گئی۔ ان دفاعی ہتھیاروں میں پانچ میزائل بھی شامل بھی تھے جن میں سے چار کروز میزائل اور ایک بلیسٹک میزائل تھا۔
انٹی شپ روبیج میزائل
ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ مشہور زمانہ روسی ساختہ میزائل پی 15 ہے جو سلک ورم کے نام سے بھی دنیا میں بنایا جا رہا ہے۔ علی عبداللہ صالح کے دور میں روس سے حاصل کئے گئے ان میزائلوں کو یمنی ماہرین نے اپگریڈ کر کے قابل استعمال بنا لیا ہے۔ اس میزائل کی خاص بات الیکٹرانک جنگ اور جامنگ سے اس کا محفوظ رہ کر اپنے ہدف کو نشانہ بنانا ہے۔
المندب کروز میزائل
یمنی فوج کی پریڈ میں پیش کیا جانے والا ایک اور میزائل المندب 1 اور المندب 2 تھا۔ یہ میزائل بھی سابقہ دور میں چین سے خریدے گئے تھے جو سی 801 کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ راڈار سے اپنے ہدف کو تلاش کرتا یہ میزائل 200 کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔
یمنی ماہرین نے اس کا ایک ماڈل المندب 2 کے نام سے تیار کیا ہے جو 300 کلومیٹر تک مار کر سکنے کی صلاحیت کا حامل ہے لیکن اس کے گائیڈنس سسٹم کے بارے میں یمنی فوج نے اطلاعات جاری نہیں کی ہیں۔
انٹی شپ بیلسٹک میزائل فالق 1
یمنی فوجی کی پریڈ میں جس میزائل نے دنیا کو حیرت زدہ کیا وہ فالق 1نامی اینٹی شپ بلیسٹک میزائل تھا۔
یاد رہے کہ دنیا کی افواج میں صرف چین اور ایران ہی ایسے ممالک ہیں جو بیلسٹک میزائل کو اینٹی شپ مشن کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ چین نے 2000ء میں ڈی ایف 21 کے نام سے 1700 کلومیٹر تک مار کر سکنے والا میزائل تیار کیا تھا جو خاص طور پر امریکی جنگی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کے لئے تیارکیا گیا تھا۔
ایران نے 1980ء میں خلیج فارس نامی اینٹی شپ بیلسٹک میزائل کو اپنی فوج میں شامل کیا تھا اور اب یمنی فوج دنیا کی تیسری فوج بن گئی ہے جو اینٹی شپ بیلسٹک میزائل استعمال کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ یمنی فوج کے پاس مختلف اقسام کے اینٹی شپ میزائل موجود ہیں جن سے اچ ایس وی 2 سوئیفٹ، الحسبہ، الظفرہ اور المدینہ کلاس کے سعودی اور اماراتی جنگی بحری جہاز نشانہ بن چکے ہیں۔
اس کےعلاوہ امریکہ کے دو اینٹی شپ جنگی جہاز یو ایس ایس میسن اور یو ایس ایس پونسی اس وقت مندب سمندری گزرگاہ میں میزائل حملوں کا نشانہ بنے جب وہ سعودی اتحاد کی مدد کے لئے اس علاقے میں داخل ہوئے تھے جس کے بعد امریکی سنٹرل کمانڈ نے اپنے بحری جنگی جہازوں کو اس علاقے سے نکال لیا تھا۔