فرانسیسی کمپنی لافارژ دہشت گردوں کی مدد کی بہترین مثال ہے:اردوغان
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے جمعہ کے دن دعوی کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کی حکومت وہ واحد حکومت ہے جس نے میدان میں داعش کے ساتھ دوبدو جنگ کی ہے لیکن ہم پر غیر اخلاقی تہمتیں لگائی گئی ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق ترکی کےصدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ان کا ملک دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے جگ کے میدان میں داعش کےساتھ جنگ کی ہے جب کہ ہم پر غیراخلاقی طور پر الزامات لگائے گئے ہیں۔
داعش کی بین الاقوامی طور پر مذمت کے باوجود ترکی کے داعش کے ساتھ تعلقات تھے جب کہ بہت سے داعش کے مغربی ممالک کے دہشت گرد ترکی کےراستے اس دہشت گرد میں شمولیت کی ہے کہ جن میں سے اب بھی بہت سارے شام میں الہوک کی فوجی چھاؤن میں اپنی قسمت کے منتظر ہیں۔
ترکی بلاواسطہ طور پر داعش سے تیل کی خریداری بھی کرتا آیا ہے جو داعش شمالی شام میں تیل کے کنوؤں سے چوری کرکے بیچ رہی تھی۔ اس حوالے سے روس کے وزیرخارجہ سرگئی لارووف نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں داعش کے ان آئل ٹینکروں کی لمبی لائن کی ڈرون سے لی گئی ویڈیوز بھی دکھائیں جو شمالی شام سے تیل چوری کرکے ترکی میں داخل ہونے کےلئے جا رہے تھے۔
اناتولی نیوزایجنسی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اردوغان نے کہا کہ کل تک جو ممالک ہم پر تہمتیں لگاتے تھے، خود ان کے داعش کے ساتھ رابطے میں تھے اور وہ داعش کے ساتھ تجارت کر رہے تھے اور انہوں نے دسیوں ملین ڈالر ان دہشت گردوں کو دئیے ہیں۔
اردوغان نے کہا کہ فرانسوی کمپنی لافارژ پیرس کی طرف سے داعش کی مدد کی ایک مثال ہے۔
ترک صدر نے مزید کہا کہ جب میں ے فرانسویوں کو جب میں اس معاملے کے بارے میں بتایا تو ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیسے ان کی بہت بڑی کمپنی لافارژ شمالی شام میں دہشت گردوں کی مدد کر رہی تھی۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ ایسی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ کون وحشی داعشیوں کی مدد کر رہا تھا جنہوں نے ہزاروں بے گناہ عام عوام اور مسلمانوں کا خون بہایا ہے۔
اردوغان نے کہا کہ جھوٹی خبروں سے کوشش کی جاتی ہے کہ ترکی کے دہشت گردوں سے مقابلے کی کوششوں کو کم غیر اہم دکھایا جائے۔ جھوٹی خبریں اور دہشت گردوں کی مدد سکے کا ایک رخ ہے جب کہ اسلام سے دشمنی اس کا دوسرا رخ ہے۔
اپنے خطاب کے آخر میں صیہونی حکومت سے اپنے تعلقات کا ذکر کئے بغیر ترک صدر نے کہا کہ طاقت اور قدرت سے فلسطینی مسئلے کا دفاع کرنا چاہیے اور دنیا کے سامنے اسرائیلی قبضےاورفلسطینیوں کی اپنے حق سے محرومیت کی وضاحت کرنی چاہیے۔