یوکرین مذاکرات کے لئے تیار تھا، لیکن امریکہ نے ہونے نہیں دیا: روس
روس کے قومی سلامتی کے سیکریٹری نے کہا ہے کہ یوکرینی حکام امن مذاکرات کے لئے تیار تھے مگر امریکہ کے دباؤ میں آکر پیچھے ہٹ گئے۔
سحر نیوز/ دنیا: روس کی قومی سلامتی ادارے کے سیکریٹری نیکولائی پاتروشیف نے کہا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے فائدہ اٹھانے والے ممالک کی فہرست میں، امریکہ اور برطانیہ کا نام سب سے اوپر دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، روس کے قومی سلامتی کے ادارے کے سیکریٹری نے مغربی ممالک کو یوکرین میں جنگ جاری رہنے کا اصل ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کے اعلی حکام نے روس کے ساتھ مسائل کے حل اور قیام امن کی تیاری کا اعلان کردیا تھا لیکن امریکہ نے ان پر دباؤ ڈال کر، کی ایف کو اپنے اس فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
نیکولائی پاتروشیف نے کہا کہ یوکرین کی قیادت، روس کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے مرحلے تک آگے بڑھ چکی تھی اور اس سلسلے میں روس کو امن تجاویز کا متن بھی بھیجا جا چکا تھا جس پر ماسکو مجموعی طور پر رضامند بھی تھا، تاہم اگر یوکرین کی اعلی قیادت میں امریکہ کی جانب سے منصوب افراد نہ ہوتے، تو یوکرین ان تجاویز سے پسپائی اختیار نہ کرتا ۔
انہوں نے کہا کہ یوکرینی مذاکرات کار ٹیم نے ایک دن صبح کو ہمیں امن کی تجاویز کا مسودہ پیش کیا اور اسی دن شام کو اسے واپس بھی لے لیا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ صرف اور صرف امریکی دباؤ کی وجہ سے پیش آیا جو ماسکو اور کی ایف کے مابین جنگ بندی کے مخالف تھے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال مارچ کے ابتدائی دنوں میں روس اور یوکرینی وفود نے بیلاروس میں ملاقات اور گفتگو کی تھی تاہم ان مذاکرات کا کوئی واضح نتیجہ نکل نہیں سکا تھا ۔ بات چیت کا اگلا دور انتیس مارچ سن دو ہزار بائیس کو استنبول میں منعقد ہوا جس کے بعد روسی وفد کے سربراہ اور صدر کے معاون ولادیمیر مدینسکی نے اعلان کیا تھا کہ کی ایف نے پہلی بار ممکنہ امن معاہدے کا مکتوب مسودہ ماسکو کے حوالے کیا ہے کہ جس میں یوکرین کی غیرجانبداری کی بات کی گئی ہے۔
تجاویز کے مذکورہ متن میں مشترکہ سرحدوں سے غیرملکی فوجیوں اور ہتھیاروں کے انخلا اور یوکرین کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک رکھنا بھی شامل تھا۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں ولودیمیر زیلنسکی نے یوکرین کی قومی سلامتی کمیٹی کے اس فیصلے کو منظور کیا تھا جس کے تحت روسی صدر ولادیمیر پوتین سے مذاکرات پر سخت پابندی عائد کی گئی تھی ۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ بھی امریکہ اور نیٹو کے دباؤ میں کیا گیا تھا۔