میشل عون صیہونی اور تکفیری دشمن سے جنگ کے دوران مقاومت کے حامی تھی: نعیم قاسم
حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے فوج، قوم اور استقامت کے اتحاد اور لبنانی سمندری حقوق کے حصول پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ میشل عون صیہونی اور تکفیری دہشت گرد دشمن کے خلاف جنگ میں استقامت کے حامی تھے۔
سحر نیوز/ عالم اسلام :ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے نائب سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے لبنانی صدر مشیل عون کے عہدے کی میعاد کے اختتام اور اورملک میں صدارتی خلا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ نے صدر اور وزیراعظم کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور حکومت کی تشکیل کےلئے بہت کوشش کی ہے اور بعض جگہوں پر ہمیں کامیابی بھی ملی لیکن آخرکار حالات اس سمت گئے جس کا منفی نتائج برآمد ہوئے۔ ہم نے صدر کے انتخاب کی وجہ سے آئینی بحران کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہر سطح کے معاشی، مالی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے صدر کا انتخاب ضروری ہے۔ ہم میشل عون کی صدارتی مدت کے اختتام کے موقع پر زور دیتے ہیں کہ اس مرحلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم نے تعاون کیا اور لبنان کےلئے کامیابیاں حاصل کیں اور غیروں کو اس ملک پر حکومت کرنے سے روک دیا ۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئےکہا کہ میشل عون نے صیہونیوں اور تکفیری دشمن کے ساتھ الجرود کی جنگ میں مدد کرکے اپنا کردار ادا کیا اور انتخابات کے قانون پر عمل درآمد سے ممکنہ حد تک عوامی مسائل کو حل کیا اور بہت سی کامیابیاں حاصل کیں البتہ یہ بھی سچ ہے کہ اس درمیان بہت سے مسائل اور استثنائات بھی ہیں جن کی وجہ سے بہت سارے کام نہ ہوسکے۔
شیخ نعیم قاسم نے لبنان کے سمندری حقوق کے حصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میشل عون نے فوج، عوام اور استقامت کے تعاون سے یہ بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اس طرح سب لبنانیوں نےسمندری ثروت کے حصول سے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
اسرائیل اور لبنان کے درمیان ہونے والے سمندری حدود کے معاہدے کے بارے میں انہوں نے مزید کہا کہ اس میدان میں کامیابی دنیا کے تنازعات کی تاریخ میں ایک بہت بڑی اور بے نظیر کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان نے دشمن کے مقابلے میں اپنے کم ترین وسائل، اپنی طاقتور مزاحمتی فورس اور قومی اتحاد سے امریکا اور اسرائیل کے مقابلے میں یہ بہت بڑی کامیابی حاصل کی جسے تاریخ میں ثبت کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے دشمن کو دھمکی دی اور اس کے نتائج دیکھے اور حتی ایک گولی چلائے بغیر ہم نے اپنا حق لے لیا۔
شیخ نعیم قاسم نے لبنان میں موجود بعض جماعتوں اور افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ فتح نہیں دیکھنا چاہتے اور وہ ایسی فتح کے لائق بھی نہیں ہیں کیونکہ وہ شکست خوردہ جماعتیں ہیں اور جب وہ ہماری حاصل کردہ فتح دیکھتے ہیں تو انکار اور الزامات لگانے لگتے ہیں۔ جولائی 2006 کی جنگ میں فتح کے وقت بھی یہی ہوا تھا، صہیونی دشمن نے بھی اعتراف کیا تھا کہ مزاحمت جیت گئی ہے لیکن ان جماعتوں نے انکار کیا تھا کیونکہ وہ خود فطرتاً ناکام جماعتیں ہیں۔
لبنان کی فتح یہ ہے کہ اس نے قانا کے علاقے میں اپنا حق اور حصہ لے لیا لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ اور دوسروں کو فریب دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ یہ کامیابی فوج، قوم اور استقامت کے نام سے تاریخ میں ثبت ہو۔ ان کی مشکل یہ ہے کہ ان کے آقا ان کو وعدے دے کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن ہم اور سب وطن پرست لبنانی اس کامیابی میں برابر کے شریک ہیں، ہم نے کوشش کی کہ ایک اچھے انداز میں اپنے حقوق حاصل کریں اور خدا کے لطف سے یہ کام انجام پا گیا۔
حزب اللہ کے نائب سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ لبنان کو شامی پناہ گزینوں کی وجہ سے بہت سی مالی اور اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور یہ مسئلہ امریکی پابندیوں کی طرح لبنانی معشیت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ پابندیاں استقامت کے خلاف ہیں لیکن ہم ان سے کہتے ہیں کہ یہ پابندیاں سب لبنانیوں کے خلاف ہیں۔ استقامت لبنان میں اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور صیہونی لبنان پر قبضہ کرناچاہتے تھے۔ امریکا چاہتا ہے کہ شامی پناہ گزین لبنان میں رہیں اور وہ فلسطینیوں کو بھی لبنان میں ٹھہرانا چاہتا ہے تاکہ اسرائیل بغیر کسی مسئلے کے اپنا قبضہ قائم رکھ سکے۔ امریکا کا سارا منصوبہ اسرائیل کو سہولت فراہم کرنا ہے جب کہ استقامت اس منصوبے کے خلاف ہے اور ہم ان کو شکست دیں گے۔ ہم کسی بھی صورت میں فوج، ملت اور استقامت کے اتحاد سے خالی لبنان نہیں چاہتے۔