علاقے کے ممالک افغانستان کے ساتھ اچھے اورخوشگوار روابط کے خواہاں ہیں: افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ
کابل میں بین الاقوامی رابطہ گروپ کا اجلاس ایران، روس اور چین کے خصوصی نمائندوں، کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے ناظم الامور، افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی اور دیگر افغان حکام کی شرکت سے منعقد ہوا۔
سحر نیوز/ عالم اسلام: بین الاقوامی رابطہ گروپ کا یہ پہلا اجلاس ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کی کوششوں سے، افغانستان میں طالبان حکومت کے اقتدار سنھبالنے کے بعد، افغانستان اور خطے کے پڑوسی ممالک کے خصوصی نمائندوں کی موجودگی میں کابل میں منعقد ہوا۔
بین الاقوامی رابطہ گروپ کے اجلاس کے ایجنڈے میں، علاقائی تعاون کو وسعت دینا، بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ، اقتصادی اور سیکورٹی تعاون، علاقائی رابطوں کو مضبوط بنانا، سلامتی اور اقتصادی چیلنجوں پر قابو پانے میں افغانستان کی مدد کرنا شامل تھا۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پیر کی رات ایران کی کوششوں سے کابل میں منعقد ہونے والے رابطہ گروپ کے پہلے اجلاس کے اختتام پر کہا کہ پڑوسی اور علاقے کے ممالک افغانستان کے ساتھ اچھے اورخوشگوار روابط کے خواہاں ہیں ۔ امیر خان متقی نے افغانستان کی موجودہ حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کئے جانے کے بارے ميں کہا کہ جب کابل میں سفارتخانے کھلے ہیں اور وہاں سے ویزے بھی جاری ہو رہے ہيں اور ملکوں کے ساتھ تجارت اور سیاسی واقتصادی وفود کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی جاری ہے تو یہ طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کے قائم مقام نے مزيد کہا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کی مخالفتیں بھی ہو رہی ہیں لیکن عالمی برادری کو افغانستان کے حالات کو درک کرنا چاہئے اس لئے کہ ایک مستحکم، خودمختار، آزاد اور ترقی پسند افغانستان، سب کے فائدے میں ہے۔
امیر خان متقی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئےکہ افغانستان کے سلسلے میں ایک مہینے سے کم کے عرصے میں ایک اور اجلاس دوحہ میں منعقد ہونے والا ہے، دونوں اجلاسوں کے درمیان فرق بتاتے ہوئے کہا کہ کابل میں رابطہ گروپ کا اجلاس ایک علاقائی اجلاس تھا کہ جس میں اس بات کا جائزہ لیا گيا کہ کس طرح سے علاقے کے ممالک افغانستان کےساتھ تعاون کرسکتے ہيں۔
افغانستان کے امورمیں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے خصوصی نمائندے نے افغانستان اور علاقے میں انتہاپسندی کی بیخ کنی کے لئے علاقے کے اتحاد کی ضرورت پر تاکید کی۔
حسن کاظمی قمی نے کابل میں علاقائی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ میں علاقائی رابطہ کمیٹی کے ممالک کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ افغانستان میں پیدا ہونے والے طویل مدتی خطرات سے نمٹنے کے لیے کہ جو بنیادی طور پر امریکی قبضے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں، منشیات، انسانی اسمگلنگ، انتہا پسندی کی بیخ کنی کا مقابلہ کریں اور جنس، نسل، زبان اور مذہب سے قطع نظر معاشرے کے مختلف طبقوں کو تعلیم اور ملازمت دینے، سب کو مساوی اور غیر امتیازی حقوق فراہم کرنے، اور قدرتی آفات کے خلاف جدوجہد اور ماحولیاتی مسائل کو مینیج کرنے کے لئے اتفاق رائے پیدا کریں اور اس کے لئے مل کر کام کریں-
صدر ایران کے خصوصی نمائندے نے کہا کہ میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ علاقائی مذاکرات کے اس پہلے دور میں ہمارا ہدف افغانستان کے عوام اور اس کے پڑوسی ملکوں کی سلامتی کو برقرار رکھنے پر مبنی ہونا چاہیے، تاکہ دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کرنا مذاکرات کے ایجنڈے میں سرفہرست قرار پائے۔
کابل میں اسلامی جمہوریہ ایران کی کوششوں سے خطے اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے خصوصی نمائندوں کی موجودگی میں پہلے بین الاقوامی رابطہ گروپ کے اجلاس کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ تہران ہمیشہ افغان عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے افغانستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جس کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران یہ یقین رکھتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک، اس ملک کے مسائل کے حل میں مدد کے لیے عملی طور پراقدامات کر سکتے ہيں، اس لیے افغانستان کے مسئلے پر ایک بین الاقوامی رابطہ گروپ کی تشکیل کو، افغانستان کو موجودہ صورتحال سے باہر نکالنے ، موجودہ چیلنجوں پر قابو پانے اور استحکام کے حصول کے لیے تہران کی سفارت کاری کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے۔