نتن یاہو اور دیگر صیہونی حلقوں میں تشویش کی لہر، آخر کس بات کو لے کر اسرائیلی وزیر اعظم ڈرے ہوئے ہیں؟
صیہونی حلقوں میں اس بات پر شدید تشویش کا پائی جاتی ہے کہ اگر جنگ بندی جاری رہی اور عالمی میڈیا دو سال کی پابندی کے بعد غزہ کی پٹی میں داخل ہوا تو وسیع پیمانے پر تباہی اور فلسطینی نسل کشی کے بارے میں علاقے کے لوگوں کی دردناک داستانیں دستاویزی شکل اختیار کرجائيں گی۔
سحرنیوز/عالم اسلام: صہیونی اخبار Yedioth Ahronoth میں چھپے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں، ہم غزہ کی تباہی کے بارے میں دستاویزی فلموں کی ایک بڑی لہر دیکھیں گے، جو طویل عرصے تک بین الاقوامی میڈیا کے منظر نامے پر حاوی رہے گی۔
اخبار کے مطابق بین الاقوامی میڈیا، جسے دو سال سے زائد پابندی کے بعد غزہ میں داخلے کی اجازت دی جائے گی، غزہ کے باشندوں کی جانب سے ان کا پرتپاک استقبال کیا جائے گا، جو 1945 میں امریکی ایٹم بم سے ہیروشیما کی تباہی کی یاد دلانے والی تصویر کے ساتھ اپنی درد بھری کہانیاں بھی شیئر کریں گے۔

مضمون نگار کے مطابق ہیروشیما پر امریکی بمباری اور غزہ کی صورتحال کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ ہے آج کے سوشل میڈیا کے دور میں، غزہ کی یہ تصاویر (ہیروشیما کی صورتحال کے برعکس) آرکائیوز میں نہیں رہیں گی، بلکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر طاقتور طریقے سے پھیلائی جائیں گی، جس سے عالمی سطح پر اسرائيل کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچے گا۔

ارنا کے مطابق، صیہونی حکومت نے 7 اکتوبر 2023 کو دو اہم مقاصد کے ساتھ غزہ کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا کہ تحریک حماس کو ختم کرنا اور اس علاقے سے صیہونی قیدیوں کی واپسی، لیکن وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی اور اسے قیدیوں کے تبادلے کے لیے حماس تحریک کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا۔

غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحانہ جنگ کے دوران حکومت نے ہر قسم کے جرائم اور نسل کشی کی اور ان جرائم کا ایک نمایاں پہلو رہائشی مراکز، اسکولوں، اسپتالوں، پناہ گزینوں کے کیمپوں اور امداد کی تقسیم کے مراکز کے قریب بھوکے لوگوں پر جان بوجھ کر حملے ہیں۔