سلامتی کونسل میں روس کی صدارت پر یوکرین چراغ پا، امریکہ بے بس
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کی صدارت پر جہاں یوکرین نے سخت ناراضگی ظاہر کی ہے وہیں امریکہ نے بھی اس معاملے میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے۔
سحر نیوز/دنیا: امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ہیں جنہیں ویٹو کا حق بھی حاصل ہے جبکہ دس دیگر ممالک بھی ہیں جو اس کونسل کے غیرمستقل رکن ہیں۔
ان پندرہ ممالک میں سے ہر ایک، ایک ایک ماہ کے لئے سلامتی کونسل کا صدر قرار پاتا ہے اور اسی دستور کے تحت اس ماہ یعنی اپریل میں روس کو اس کونسل کی صدارت سونپی گئی ہے۔ اس سے قبل روس کو گزشتہ برس فروری کے مہینے میں سلامتی کونسل کی صدارت دی گئی تھی، یعنی وہی موقع جب یوکرین کے خلاف اس کی جنگ کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیتری کولبا نے ہفتے کے روز سلامتی کونسل میں روس کی صدارت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اُسے عالمی برادری کے منہ پر ایک طمانچہ قرار دیا۔
یوکرین نے روس کو صدارت تک پہنچنے سے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اُس نے اس سلسلے میں امریکہ سے مدد لینے کی کوشش کی تاہم امریکیوں نے واضح کیا کہ واشنگٹن روس کو کہ جو سلامتی کونسل کا ایک مستقل رکن اور ویٹو پاور کا حامل ہے، صدارت تک پہنچنے سے نہیں روک سکتا۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی اور وزیر خارجہ کولبا نے بارہا عالمی برادری سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ سلامتی کونسل میں روس کی صدارت کا سدباب کریں۔
حال ہی میں امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جین پیرے نے بھی پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے پاس اس موضوع کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک مستقل رکن ہے اور کوئی بھی ایسا قانونی طریقہ موجود نہیں ہے جس سے روس کو اس کونسل کی صدارت تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔