گروپ بیس کے اختتامی بیان پر امریکی ایوان نمائندگان کا ردعمل
امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ مائیکل میک کال نے جی ٹوئنٹی کے اختتامی بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیان یوکرین کے صدر کے منہ پر طمانچے کی طرح ہے۔
سحرنیوز/دنیا: امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ مائیکل میک کال نے اس بارے میں کہا کہ جی ٹوئنٹی کے گذشتہ سال کے بیان نے سیکورٹی معاہدوں اور جھڑپوں کے خاتمے کے بعد نیٹو میں شامل ہونے کے بارے میں یوکرین کو پرامید بنا دیا تھا لیکن اس سال کا بیان اس چیز کی تائید نہیں کرتا ہے کہ جسے زیلنسکی اور اس کے حامی یوکرین پر روس کی جارحیت قرار دیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس سے قبل بھی امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس میں یوکرین کی صورت حال کے لیے ایک پرامن راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت سے اتفاق کیا گيا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ نئی دہلی میں ہونے والے جی ٹوئنٹی کے اجلاس کے اختتامی بیان میں روس کا نام لیے بغیر جنگ یوکرین میں روس کے اقدامات پر اشارہ تنقید اور یوکرین میں طاقت کے استعمال کی مذمت کی گئی۔
اس بیان میں جنگ یوکرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گيا ہے کہ تمام ملکوں کو کسی بھی ملک کی ارضی سالمیت، حاکمیت یا سیاسی خودمختاری کے خلاف کسی بھی قسم کا اقدام یا طاقت کا استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
اس بیان میں روس کی جانب سے جنگ کا آغاز کرنے کی طرف کوئی واضح اشارہ نہیں کیا گيا ہے۔
درایں اثنا کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی یوکرین جنگ کے بارے میں جی ٹوئنٹی کے کمزور بیان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کسی خاص ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ دوسرے ملکوں کے جنگ یوکرین کے بارے میں نظریات کینیڈا سے مختلف تھے اور اسی وجہ سے یہ بیان بہت ہی محتاط اور ہماری توقع سے زیادہ نرم مرتب کرکے جاری کیا گيا۔
رپورٹ کے مطابق یورپی پارلیمنٹ کے رکن اور امریکہ اور یورپی یونین کے وفد کے سربراہ رادسلاو سیکورسکی نے بھی کہا ہے کہ یورپی ملکوں کو روس کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔