Apr ۲۹, ۲۰۲۵ ۲۰:۰۹ Asia/Tehran
  • ایران کو ٹیڑھی نظر سے دیکھنے والوں کے لئے ہوش اڑا دینے والا جائزہ!

ایران مغربی ایشیا میں اہم اور مضبوط دفاعی طاقت ہونے کے علاوہ میں عالمی اور ایشیائی سطح پر طاقتور ممالک کی درجہ بندی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے ایک نئے دور کے آغاز سے قبل، صہیونی حکام کی جانب سے ایران کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ معصوم بچوں کے تاریخی قتل عام اور انسانیت کے خلاف ننگی جارحیت کی تاریخ رکھنے والا اسرائیل اب ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی دھمکیاں دے کر کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال فطری طور پر عوام اور ماہرین کے ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ کیا اسرائیل واقعی ایران کی دفاعی اور جوہری بنیادی تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اور اگر وہ ایسا خطرناک قدم اٹھائے تو ایران کی جانب سے کیا ردعمل سامنے آئے گا؟ یہ مسئلہ نہ صرف دونوں فریقین کی عسکری صلاحیتوں کے باریک بینی سے جائزے کا متقاضی ہے، بلکہ ایران کی اسٹریٹجک تیاری اور ممکنہ جوابی کارروائی کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

ایران مغربی ایشیا میں ایک مضبوط فوجی طاقت ہونے کے ساتھ عالمی سطح پر عسکری طاقت کی فہرست میں قابلِ ذکر مقام پر فائز ہے۔ پابندیوں اور نسبتا کم دفاعی بجٹ کے باوجود ایران اپنی میزائل ٹیکنالوجی، مقامی دفاعی صنعت اور منفرد اسٹریٹجک مقام کے ذریعے خطے میں ایک اہم فوجی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ اس رپورٹ میں عالمی اور ایشیائی ممالک کے درمیان ایران کی دفاعی پوزیشن اور اس عسکری طاقت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

امریکی تحقیقاتی ادارہ گلوبل فائر پاور جو ہر سال دنیا کے ممالک کی فوجی طاقت کا موازنہ اور درجہ بندی کرتا ہے، نے اپنی 2023 کی رپورٹ میں ایران کو مغربی ایشیا کی نمایاں عسکری طاقتوں میں شمار کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، ایران نہ صرف صہیونی حکومت بلکہ سعودی عرب جیسے ممالک کے مقابلے میں بھی برتر مقام رکھتا ہے۔ اسلامی جمہوری ایران کو ایشیا کی ساتویں بڑی عسکری طاقت قرار دیا گیا ہے، جبکہ روس، چین اور ہندوستان بالترتیب پہلے تین مقامات پر فائز ہیں۔

تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذکورہ ممالک خطے میں سب سے زیادہ ہتھیار بنانے اور خریدنے والے ملکوں میں شامل ہیں اور اپنی عسکری قوت کو بنیادی طور پر اسلحہ کے ذخائر پر قائم رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کا دفاعی بجٹ 2020 میں 56 ارب ڈالر تھا، جبکہ ہندوستان کا دفاعی بجٹ اسی سال 61 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ گذشتہ سال اسرائیلی کابینہ نے 2025 کے دفاعی بجٹ کی منظوری دی، جس میں جنگی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ اور دیگر شعبوں میں کٹوتیاں شامل ہیں۔

یہ بجٹ، جو غزہ کے خلاف جاری جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، ایک ایسی جنگ میں خرچ کرنے کے لیے ہے جس کا انجام ابھی واضح نہیں اور جس کے خاتمے کے لیے اسرائیل میں سڑکوں پر مظاہرے جاری ہیں۔ صہیونی حکومت نے مجبور ہوکر اپنے دفاعی اخراجات میں اربوں شیکل کا اضافہ کیا ہے تاکہ غزہ اور لبنان کے خلاف جنگ کے اخراجات پورے کیے جاسکیں، جب کہ اس دوران افرادی قوت کی کمی کے باعث اسرائیلی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ وزیر خزانہ بزالل اسموتریچ نے اس موقع پر اپنے بیان میں کہا کہ 2025 کے بجٹ کا بنیادی مقصد ملک کی سلامتی کو برقرار رکھنا، تمام محاذوں پر فتح حاصل کرنا اور ساتھ ہی اسرائیلی معاشی طاقت کو محفوظ رکھنا ہے۔

قبل ازیں، اسموتریچ نے اعلان کیا تھا کہ اگرچہ 2025 میں فوجی اخراجات 102 ارب شیکل (تقریباً 27.5 ارب ڈالر) تک پہنچ جائیں گے، تاہم فوجی بجٹ میں مزید اضافہ کے لیے دروازے بند نہیں کیے جائیں گے۔ دوسری جانب، سابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے اس بجٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ ہر اسرائیلی خاندان پر سالانہ 20 ہزار شیکل کا اضافی مالی بوجھ ڈالے گا۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ نتین یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی اتحادی جماعتوں، خصوصاً "حریدی" گروہوں کے مالی مفادات کو تحفظ دیتا ہے، جب کہ عام صہیونی عوام کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔

 

عالمی اور ایشیائی سطح پر ایران کی عسکری طاقت کی درجہ بندی

ایران کی عسکری طاقت کی درجہ بندی کئی عوامل پر منحصر ہے، جن میں فوجیوں کی تعداد، دفاعی بجٹ، فوجی سازوسامان، ٹیکنالوجی کی صلاحیت، دفاعی صنعت کی پیشرفت، اسٹریٹیجک محلِ وقوع اور آپریشنل صلاحیتیں شامل ہیں۔ مختلف ذرائع، بالخصوص گلوبل فائر پاور جیسے اداروں کی رپورٹس اور موجودہ سیاسی و اقتصادی حالات کی بنیاد پر ایران کی عسکری پوزیشن کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

دنیا میں ایران کی عسکری درجہ بندی

سال 2023 کی رپورٹس کے مطابق، ایران دنیا کی فوجی طاقتوں میں 13ویں سے 15ویں پوزیشن براجمان رہا ہے۔ یہ درجہ بندی مختلف معیارات پر مبنی ہے:

 افرادی قوت:
ایران کی فعال فوجی قوت ملک کی آبادی کا تقریباً 0.5 سے 1.5 فیصد بنتی ہے، جب کہ تقریباً 4 لاکھ ریزرو فوجی موجود ہیں، جو کہ ایران کی بڑی عسکری صلاحیتوں میں سے ایک ہے۔

فوجی سازوسامان:
ایران کے پاس ٹینکوں، توپخانوں، بیلسٹک اور کروز میزائلوں، آبدوزوں اور فضائی بیڑے سمیت وسیع قسم کا فوجی سازوسامان موجود ہے۔

میزائل صلاحیت:

ایران بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی تیاری اور لانچنگ کے حوالے سے دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، جو اس کی دفاعی برتری کا اہم عنصر ہے۔

مقامی دفاعی صنعت:

بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنی مقامی دفاعی صنعت کو ترقی دی ہے اور مختلف فوجی سازوسامان کی اندرون ملک تیاری میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے اس کی خود انحصاری بڑھی ہے۔

اسٹریٹیجک محلِ وقوع:

مغربی ایشیا میں ایران کا جغرافیائی محلِ وقوع اور آبنائے ہرمز پر اس کا کنٹرول اسے خطے میں ایک اسٹریٹیجک عسکری برتری فراہم کرتا ہے۔

دفاعی بجٹ:

ایران کا دفاعی بجٹ امریکہ، چین یا روس جیسے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ یہ کمی اقتصادی پابندیوں اور داخلی مالی مشکلات کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے کسی صورت ان عالمی طاقتوں کے بے تحاشا فوجی اخراجات سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔

ایشیائی سطح پر ایران کی عسکری طاقت کی درجہ بندی

ایشیا میں ایران عموما عسکری طاقت کے لحاظ سے چھٹے سے آٹھویں نمبر کے درمیان شمار ہوتا ہے۔ یہ درجہ بندی اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ ایران خطے میں ایک نمایاں فوجی طاقت ہے، اگرچہ چین، بھارت اور روس جیسے ممالک کے مقابلے میں اس کی پوزیشن نسبتاً نچلی ہے۔

ایران کے پاس دنیا کے سب سے بڑے اور متنوع میزائل ذخائر، آبنائے ہرمز پر کنٹرول اور کیسپئن سی و خلیج فارس تک رسائی، مقامی دفاعی صنعت موجود ہے جس نے اس عالمی اور علاقائی سطح پر دفاعی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایران کے پاس متعدد دفاعی و حفاظتی ادارے موجود ہیں، جن میں فوج، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، وزارت دفاع اور عوامی رضاکار فورس (بسیج) شامل ہیں، جو ہنگامی حالات میں بھرپور کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تمام تر اعداد و شمار اور بین الاقوامی ماہرین اور عالمی رہنماؤں کے اعترافات کے مطابق، ایران مغربی ایشیا اور دنیا کی ایک اہم فوجی قوت بن چکا ہے۔ خصوصاً میزائل طاقت اور اسٹریٹیجک محلِ وقوع جیسی خصوصیات نے ایران کو عالمی سطح پر فیصلہ کن کردار کا حامل ملک بنایا ہے۔

ایران اور خطے کے ممالک کے دفاعی بجٹ کا موازنہ

جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ایشیا میں اسرائیل اور سعودی عرب اپنے دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ اسلحہ خریدنے اور عسکری ترقی پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ایران نے وسیع پیمانے پر عائد پابندیوں اور بین الاقوامی دباؤ کے باوجود، محدود بجٹ کے ساتھ بھی بہت سے علاقائی ممالک پر عسکری برتری حاصل کر لی ہے۔

2023 کے بجٹ کے مطابق ایران کا دفاعی بجٹ تقریباً 19 ارب ڈالر تھا جو کہ خطے کے دیگر ممالک کے بجٹ کا تقریباً ایک تہائی فیصد بنتا ہے۔

2023 میں اسرائیل کا دفاعی بجٹ تقریباً 26 ارب ڈالر تھا۔ اس میں امریکہ کی سالانہ 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد شامل نہیں۔

2023 میں سعودی عرب کا دفاعی بجٹ تقریباً 57 ارب ڈالر تھا۔

ایران کی دفاعی صنعت میں پیش رفت

ایران نے عسکری میدان میں ایک اہم کامیابی یہ حاصل کی ہے کہ اس نے اپنی دفاعی صنعت کو مقامی سطح پر ترقی دے کر غیر ملکی اسلحہ پر انحصار کم کر دیا ہے۔ یہ کامیابی بالخصوص بین الاقوامی پابندیوں کے تناظر میں نمایاں اہمیت رکھتی ہے۔

گذشتہ چند برسوں کے دوران ایران نے دفاعی صنعت میں درج ذیل اہم کامیابیاں حاصل کیں:

میزائل اور فضائی دفاعی نظام:

ایران نے مقامی سطح پر جدید بیلسٹک اور کروز میزائل تیار کیے ہیں، جن میں خرمشہر، فاتح، ذوالفقار اور شهاب شامل ہیں۔

فضائی دفاع کے میدان میں بھی ایران نے کامیابی حاصل کی ہے، جن میں روسی میزائل سسٹم S-300 کے ہم پلہ "باور-373" اور "مرصاد" جیسے جدید دفاعی نظام شامل ہیں۔

بحری دفاعی صنعت:

ایران نے جدید آبدوزیں جیسے فاتح اور غدیر تیار کی ہیں۔ مقامی سطح پر تیارکردہ بحری جنگی جہاز، جیسے دنا اور سهند، ایرانی بحریہ کی صلاحیتوں میں اضافہ کرچکے ہیں۔

ڈرون ٹیکنالوجی:

ایران دنیا کی ان معدود فوجی قوتوں میں شامل ہے جو عسکری ڈرون تیار کرتی ہیں۔ ایران کے تیارکردہ جدید ڈرون طیاروں میں شاهد-129، کرار، کمان ۱۲ و ۲۲، ارش، غزه، فطرس، اور شاهد-191 شامل ہیں۔

ہلکے و بھاری ہتھیار:

ایران نے مختلف ہلکے و بھاری ہتھیاروں کی مقامی تیاری میں بھی کامیابی حاصل کی ہے، جیسے کرار و ذوالفقار ٹینک۔

فضائیہ کی صلاحیت:

غیر ملکی طیارے خریدنے کی پابندیوں کے باوجود ایران نے مقامی سطح پر جدید طیارے جیسے یاسین و کوثر تیار کیے ہیں، اور موجودہ طیاروں کو مرمت و اپگریڈ کرکے فعال رکھا ہے۔

ایران کی خطے میں پوزیشن

ایران کے بیس سالہ ترقیاتی منصوبے کے مطابق، ملک کو 2025 تک مغربی ایشیا کی پہلی عسکری قوت بننا ہے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ایران ترکی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ جس رفتار سے ایران ترقی کررہا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکن ہے مقررہ وقت سے قبل ہی حاصل ہو جائے۔

ایران کی عسکری طاقت میدانِ عمل میں بھی اپنی صلاحیت ثابت کرچکی ہے۔ "وعده صادق 1 و 2" جیسے آپریشنز، اور امریکہ و اسرائیل کے جدید ڈرونز کی سرنگونی اس امر کا ثبوت ہے کہ ایران نے اپنی دفاعی صنعت میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

حالیہ سالوں میں ہونے والی دفاعی ترقی سے ایران کی عسکری طاقت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مستقبل میں مزید سائنسی و دفاعی سرمایہ کاری سے ایران اپنے طویل المدتی دفاعی اہداف کے حصول کے قریب تر آسکتا ہے۔

 

ٹیگس