پڑوسیوں کے درمیان پائيدار دوستی/ ایران اور پاکستان کی دوطرفہ تعلقات کی پالیسی
سابق ایرانی سفیر اور سینئر سفارت کار ماشا اللہ شاکری کہا ہے کہ پڑسیوں کے درمیان محبت کے رشتوں کا تحفظ ایران اور پاکستان کی دوطرفہ پالیسی ہے۔
سحرنیوز/ایران: اسلام آباد میں متعین ایران کے سابق سفیر ماشاء اللہ شکری نے کہا کہ اندرونی مسائل اور مشکلات کے باوجود، ایران اور پاکستان میں ایک چیز مشترک تھی: اول، ہمسائیگی کی روشنی میں دوستی برقرار رکھنا۔ دوسرا، غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت؛ اور تیسرا، مشکل کے وقت ایک دوسرے کا ساتھ دینا، جس کی علامت لاریجانی کے دورہ پاکستان کے دوران پوری طرح نمایاں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ایران کو خطے کے کچھ ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی جن میں پاکستان سرفہرست تھا۔
سابق ایرانی سفارت کار نے کہا کہ پاکستان نے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی مختلف سطحوں پر، نچلی سطح سے لیکر دونوں پارلیمانوں تک اور اسی طرح حکومتی سطح پر بھی مختلف طریقوں سے حمایت کی۔
انہوں نے ایران کے لیے پاکستانی عوام کی حمایت کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم بات یہ تھی کہ بارہ روزہ جنگ کے دوران کئی لاکھ پاکستانی شہری صیہونی حکومت کی مذمت اور فلسطین کے کاز کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے جو ایران اور ایرانی عوام کے موقف کے مطابق اور اس سے ہم آہنگ تھا۔
سابق ایرانی سفیر نے کا کہ یہ ایک قابل قدر نکتہ ہے، اور ہمارے ملک کے حکام نے مختلف طریقوں سے پاکستان کی حکومت اور عوام سے اس تشکر کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے ایران و پاکستان کے نجی شعبے کے درمیان تجارت رابطوں کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ممالک کے نجی شعبے کو ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعلقات کے فروغ کے لیے آگے آنا چاہیے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے فروغ کی غرض سے اچھے اقدامات کیے جارہے ہیں بعض قوانین کی اصلاح کی گئی ہے جو مثبت پیشرفت ہے۔
ہمیں فالو کریں:
Follow us: Facebook, X, instagram, tiktok
پاکستان میں ایران کے سابق سفیر نے کہا کہ اس وقت دونوں ممالک ریل، روڈ اور سمندر کے ذریعے ایک دوسرے منسلک ہیں اور تہران اور اسلام آباد، تہران اور لاہور، تہران اور مشہد، اور تہران اور کراچی کے درمیان متعدد پروازیں انجام پارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو معاملات حکومتوں کے دائرہ اختیار میں تھے وہ کافی حدتک عملی شکل میں سامنے آچکے ہیں۔تاہم ضرورت کی اشیا دنیا کے دور دراز حصوں سے درآمد کرنے کے بجائے اپنے پڑوسی اور دوست ممالک سے منگوانا بہتر ہوگا۔