روس شمالی کوریا سے ہتھیار خریدنا چاہتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان
امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ روس یوکرین جنگ میں حملے جاری رکھنے کےلئے شمالی کوریا سے ہتھیار خریدنے کے امکانات پر غور کررہا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ ایران پر بھی روس کو ہتھیار فراہم کے بے بنیاد الزام لگا چکا ہے۔
ذرائع ابلاغ نے اناتولی نیوز ایجنسی کے حوالے سے لکھا کہ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ روس ناامید ہوکر ایران اور شمالی کوریا کا سہارا لے رہا ہے تاکہ ان ممالک سے وہ ہتھیار خرید سکے جن کو وہ خود تیار نہیں کرسکتا یا کسی طریقے سے ان کو حاصل نہیں کرسکتا۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ یہ امریکہ کی روس پر لگائی جانے والی پابندیوں کا اثر ہے۔حقیقت یہ ہے کہ روس اپنی بنیادی ضروریات پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ، انہوں نے ایران کا رخ کیا ہے اوراسی طرح سے وہ شمالی کوریا سے بھی ہتھیار خریدنے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ستمبر 2022کے اوائل میں وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ روس شمالی کوریا سے لاکھوں توپ کے گولے اور میزائل خریدنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ انہیں یوکرین کے خلاف اپنی جنگ میں استعمال کرسکے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ نہیں واضح کیا کہ روس شمالی کوریا سے کون سے ہتھیار یا ٹیکنالوجی خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے امریکہ اور یورپی ممالک نے روس کے ایران سے ڈرون طیارے اور بلیسٹک میزائل خریدنے کے بے بنیاد دعووں کا پروپیگنڈہ بھی بہت زورشور سے کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مندوب "امیر سعید ایروانی" نے سکریٹری جنرل "انتونیو گوتریش" کے نام ایک خط میں یوکرین میں گرکر تباہ ہونے والے ایک ڈرون طیارے کے پرزوں کی تحقیقات کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک ٹیم یوکرین روانہ کرنے کی یوکرین کی درخواست اور اسے ایران کے جوہری معاہدے سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس پر عمل درآمد سے جوڑنے کو ہر طرح کی قانونی بنیاد سے عاری قرار دیا
مغربی ممالک بالخصوص امریکہ، یوکرین کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اربوں ڈالر کا فوجی سازوسامان یوکرین بھیج چکے ہیں اور ایران پر ایک عرصے سے جھوٹے دعوے کر کے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ایران، یوکرین کی جنگ میں استعمال کے لیے، روس کو ڈرون بھیج رہا ہے۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ان ملکوں کے اس دعوے کو بارہا مسترد کیا ہے۔