سال 2024ء میں رونماں ہونے والے اہم عالمی واقعات، آيت اللہ رئیسی اور سید نصر اللہ کی شہادت سب سے بڑا نقصان
مشرقِ وسطیٰ سے امریکا تک، سال 2024ء کے مثبت اور منفی پہلو کیا رہے اور کون سے اہم عالمی واقعات رونما ہوئے جو برسوں تک دنیا کو متاثر کرتے رہیں گے؟
ڈونلڈ ٹرمپمشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگیں، غزہ میں دہشتگرد اسرائیل کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی، مہنگائی کا عالمی بحران، شام، فرانس، جرمنی اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں سیاسی عدم استحکام مایوس کن ہے۔ ایپسو کے نام سے حال ہی میں ایک سروے ہوا جس میں 33 ممالک سے تعلق رکھنے والے 23 ہزار 721 بالغ افراد نے حصہ لیا۔ 65 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ 2024ء ان کے ملک کے لیے ایک خراب سال رہا جبکہ 51 فیصد نے اسے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے برا سال قرار دیا۔
1- اسلامی جمہوریہ ایران کے شہید صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی شہادت سے نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر میں غم کی لہر دوڑ گئی تھی۔ شہید رئیسی کی شہادت ایران کے لئے ایک ایسا نقصان ہے کہ جسکی بھرپائی نہیں کی جا سکتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بھی اپنے بیان میں فرمایا تھا کہ خداوند عالم ان شاء اللہ جناب رئيسی کے درجات بلند کرے۔ میں جتنا بھی سوچتا ہوں، خود میرے لیے بھی، ملک کے لیے بھی اور خاص طور پر ان کی فیملی کے لیے بھی اس کی تلافی نا ممکن نظر آتی۔ یعنی بہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی نہیں ہو سکتی، واقعی بہت سخت ہے، بہت بڑا صدمہ ہے۔
2- رواں برس ستمبر کے مہینے میں دہشتگرد اسرائیل نے حزب اللہ کی مرکزی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے اپنی دہشتگردانہ کارروائیاں تیز کیں اور 17 ستمبر کو لبنان بھر میں پیجرز پھٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں متعدد افراد جاں بحق اور ایرانی سفیر مجتبیٰ امانی سمیت تقریباً ڈھائی ہزار افراد زخمی ہوئے تھے جس کی ذمہ داری بعد ازاں بنیامن نیتن یاہو نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ پیجرز دھماکے ان کے حکم پر ہوئے۔
27 ستمبر کو حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کو دہشتگرد صیہونی حکومت نے بزدلانہ حملہ کر کے انھیں نشانہ بنایا۔ حملے کے وقت سید حسن نصر اللہ جنوبی بیروت میں ایک رہائشی عمارت کے تہہ خانے میں واقع ہیڈ کوارٹر میں اہم کمانڈرز کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے۔ حسن نصر اللہ 1992ء سے حزب اللہ کی قیادت کر رہے تھے اور انہوں نے حزب اللہ کو لبنان میں ایک طاقتور سیاسی اور فوجی قوت میں بدل دیا تھا۔ وہ ہمیشہ مظلوموں کی مدد کے لئے آگے-آگے رہتے تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے انکی شہادت پر انھیں یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سید حسن نصر اللہ ظالم اور لٹیرے شیاطین کے مقابلے میں مزاحمت کا بلند پرچم تھے، مظلوموں کی بولتی زبان اور بہادر محافظ تھے، مجاہدین اور حق پرستوں کی جرئت و ڈھارس کا موجب تھے۔
3- سال 2024ء میں حماس کو دو بڑے دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حماس سربراہ اسمعٰیل ہنیہ کو اپنے دورہِ ایران کے دوران گیسٹ ہاؤس میں شہید کردیا گیا۔ اس سانحہ کو حماس کی کمر توڑنے کے مترادف قرار دیا گیا لیکن 6 روز بعد یحییٰ سنوار حماس کے اگلے سربراہ مقرر ہوئے جوکہ پہلے ہی اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے۔
حماس کو دوسرا دھچکا اس وقت لگا کہ جب اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ گشت کے دوران اتفاقیہ طور پر یحییٰ سنوار سے سامنا ہونے پر اسرائیل نے مقابلے کے بعد انہیں شہید کردیا ہے۔ ویڈیو میں یحییٰ سنوار کے آخری لمحات کو دکھایا گیا جہاں وہ زخمی حالت میں ہونے کے باوجود اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی صہیونی ڈرون پر مارتے ہیں۔ یہ ویڈیو فلسطینیوں کی مزاحمت کی عظیم علامت تھی جس نے فلسطینیوں میں موجود آزادی کے جذبے کی بہترین عکاسی کی۔
4- گزشتہ برس کا سب سے تکلیف دہ واقعہ دہشتگرد اسرائیل کے ذریعے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی ہے جو ابھی بھی جاری ہے اور اب تک 46 ہزار سے زائد فلسطینی جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ہسپتال اور عبادت گاہیں بھی غاصب صیہونی حکومت کی بمباری سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہ جنگ جارحیت اور درندگی کی بدترین مثال ہے۔
تصور کیجیے کہ مائیں اپنے بچوں کی جنازوں اور بکھرے ہوئے جسم کے ٹکڑوں پر نام لکھ رہی ہیں تاکہ لاشیں پہچاننے میں آسانی ہو۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بھلا کیا ہوسکتا ہے؟ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس غزہ کو ’بچوں کا قبرستان‘ قرار دے چکے ہیں مگر وہ عملی طور پر کوئی متحرک کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وہیں امریکا، برطانیہ سمیت کچھ مغربی اور اسلامی ممالک کے حکام اسرائیل کی دہشتگردی میں اسکا ساتھ دے رہے ہیں۔
جنگ کے دوران امریکا اور مغربی ممالک کی حکومتوں کا رویہ افسوس ناک رہا جنہوں نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے اور جنگ بندی میں مؤثر کردار ادا کرنے کے بجائے اسے مزید ہوا دی۔ واضح رہے کہ امریکا غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے مجموعی طور پر چار بار اقوامِ متحدہ میں پیش کی جانے والی جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے جبکہ پینٹاگون کے سربراہ لائیڈ آسٹن کا یہ بیان روشن خیالی کے دعوے کرنے والوں کا بھیانک چہرہ سامنے لاتا ہے کہ ’ہم اسرائیل کو وہ ساز و سامان فراہم کرتے رہیں گے جو اسے اپنے دفاع کے لیے درکار ہے جس میں اہم گولہ بارود، تکنیکی گاڑیاں اور فضائی دفاعی نظام شامل ہے‘۔
5- 2024 کے اختتام سے پہلے جو دھماکا خیز خبر عالمی میڈیا کی زینت بنی وہ شام کے صدر بشارالاسد کا تخت الٹنا تھا۔ 9 دسمبر کو باغی گروہوں نے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کرلیا اور بشار الاسد کا 24 سالہ اقتدار اپنے اختتام کو پہنچا۔
باغی گروہوں میں زیادہ تر تکفیری دہشتگرد گروہ شامل ہیں۔ کسی فیصلہ کن طبقے اور مؤثر حکومت کی عدم موجودگی شام کے لیے اچھی خبر نہیں۔ وہیں بشار اسد کے تختہ پلٹنے کے پیچھے اسرائیل کی ہی سازشی منصوبہ بندی ہے، جس میں امریکا اور ترکیہ نے اسکی مدد کی ہے۔
6- رواں برس میڈیا، جمہوریت اور دنیا کے سیاسی حالات کے لیے سب سے اہم ایونٹ امریکا کے صدارتی انتخابات تھے۔ البتہ کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاسی تجزیہ کاروں کی اکثریت کو سرپرائز دیتے ہوئے ڈیموکریٹک امیدوار کاملا ہیرس کو واضح فرق سے شکست دی۔ یہ صدارتی انتخاب تاریخی میں اس لیے بھی یاد رکھے جائیں گے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ پر اس دوران دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا۔
جدید انسانی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات کے نتائج کے بعد امریکا میں واضح سماجی تقسیم اور دنیا میں جمہوریت کا مستقبل کس حد تک محفوظ ہے، اس کا درست اندازہ آئندہ برسوں میں ہونے والی عالمی پیش رفت سے لگایا جا سکے گا۔
7- سال 2024 میں جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت میں دائر مقدمے میں اہم پیش رفت ہوئی اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتین یاہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور انہیں جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا۔ مسلم دنیا اور مغرب کے امن پسند شہریوں کی کثیر تعداد نے اسے بین الاقوامی قانون کی حمایت قرار دیا۔
اس حوالے سے ایک بیان میں حماس کی جانب سے کہا گیا کہ ’ہم دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صہیونی جنگی مجرمان نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیردفاع گیلنٹ کو عدالت میں لانے کے آئی سی سی کے ساتھ تعاون کریں اور غزہ کی پٹی میں شہریوں کے خلاف نسل کشی کے جرائم کو فوری طور پر روکنے کے لیے کام کریں‘۔
8- سال 2024 میں اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے باضابطہ طور پر فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کیا جو عالمی سیاست میں غیرمعمولی قدم ہے۔ اس فیصلے کو فلسطین کے حامیوں اور مسلم دنیا کی طرف سے خوب پذیرائی ملی۔ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے ردعمل کے طور پر رواں ماہ اسرائیل نے آئرلینڈ میں موجود اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا۔ بہت سے ممالک کے سفارت کاروں نے تسلیم کیے جانے کے اس عمل کو علامتی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے دیگر ممالک سے بھی ایسا کرنے کی اپیل کی۔ کیا یہ دو ریاستی حل کی طرف فیصلہ کن قدم ثابت ہوسکتا ہے؟ بہرحال یہ فلسطینیوں کے لیے ایک فخر کا لمحہ تھا جس نے انصاف اور آزادی کے لیے ان کی جدوجہد کو تقویت بخشی۔
9- ڈھاکا سے شروع ہونے والے طلبہ کے احتجاج کی ملک گیر صورت اختیار کرنے کے بعد وزیراعظم شیخ حسینہ ملک چھوڑ کر ہندوستان فرار ہوگئیں اور ان کے 15 سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ 2024ء میں بنگلہ دیش کی سیاست میں اس وقت ہلچل پیدا ہوئی جب پُرتشدد مظاہروں اور ان میں سیکڑوں ہلاکتوں کے بعد وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے استعفیٰ دیا اور بہن کے ہمراہ ملک سے فرار ہوگئیں۔ 2024ء بنگلہ دیش میں انتخابات کا سال تھا جہاں مسلسل چوتھی بار شیخ حسینہ کامیاب ہوئیں۔ انہیں خطے کی طاقتور ترین خاتون کہا جاتا تھا مگر وہی آمریت پسند مزاج رہنما آنسوؤں میں ڈوبی نظر آئیں۔
شیخ حسینہ نے ڈاکٹر یونس کو ’غریبوں کا خون چوسنے والا‘ قرار دیتے ہوئے کرپشن کی بنیاد پر جیل میں ڈالا تھا لیکن اب گردش ایام دیکھیے کہ وہ جیل سے نکل کر عبوری حکومت کے نگران وزیراعظم بن چکے ہیں۔
10- رواں سال ایک اور غیرمعمولی واقعہ جنوبی کوریا کا قلیل مدتی مارشل لا تھا۔ جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے 3 دسمبر کو جنوبی کوریا کو ایٹمی قوت کے حامل دشمن ملک شمالی کوریا کے جارحانہ اقدامات اور ریاست مخالف عناصر سے بچانے کا جواز پیش کرتے ہوئے ملک میں مارشل لگایا جو محض 6 گھنٹے ہی چل سکا۔
پارلیمنٹ کے باہر شدید عوامی مظاہرے ہوئے جہاں عوام فوجیوں سے لڑتی نظر آئی جبکہ رات گئے اراکین پارلیمنٹ نے مارشل لا روکنے کی قرارداد منظور کی جس کے بعد صدر کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اس کے بعد ملک بھر میں غیرمقبول صدر کے خلاف مہم چلائی گئی اور 14 دسمبر کو حزب اختلاف کی جانب سے صدر کے مواخذے کی تحریک کامیاب ہوگئی جس کے بعد وزیراعظم جنوبی کوریا قائم مقام صدر کے عہدے پرفائز ہیں۔
11- سال 2024 میں میکسیکو نے پہلی خاتون صدر کا انتخاب کرتے ہوئے تاریخ رقم کی۔ کلاڈیا شیئن بام کی مہم صنفی مساوات، تعلیمی اصلاحات اور منظم جرائم کے خاتمے پر مرکوز تھی۔ خواتین نے اس کامیابی کو میکسیکو میں ایک نئے دور کے آغاز کے طور پر منایا۔ اگرچہ بہت سے ناقدین ان کی انتظامی صلاحیتوں پر سوال اٹھا رہے ہیں لیکن دنیا میں صنفی برابری اور جمہوری عمل کے لیے یہ ایک یادگار لمحہ تھا۔
کلاڈیا شیئن بام بنیادی طور پر ایک موسمیاتی سائنسدان ہیں جنہوں نے 1995ء میں میکسیکو کی نیشنل یونیورسٹی سے انرجی انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ شیئن بام کی اپنی صدارتی مہم کے دوران کہے گئے الفاظ اہم تھے، ’ہم تبدیلی لاتے ہیں۔ ہم جنگجو ہیں جو دوسری خواتین کے لیے راستے کھولتے ہیں‘۔
12- رواں برس 24 فروری کو روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو دو سال پورے ہوچکے ہیں۔ اس دوران درجنوں شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، ہزاروں زندگیاں موت کی نذر ہو چکی ہیں جبکہ لاکھوں افراد بھوک کا شکار ہیں اور اپنے گھروں سے محروم ہوچکے ہیں۔ تقریباً دو سال گزر جانے کے بعد بھی صورت حال میں بہتری نظر نہیں آتی۔ اقوام متحدہ متنبہ کرچکا ہے کہ اس جنگ کے شعلے پوری دنیا میں پھیل سکتے ہیں لیکن وہ نتیجہ خیز حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ مغربی ممالک کی یوکرین کو اسلحہ اور بارودی مواد سپلائی کرنے کی پالیسی کیا ٹرمپ انتظامیہ آنے کے بعد بھی برقرار رہے گی؟
ماہرین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ امریکا کے نومنتخب صدر نے چند روز قبل یوکرین پر سخت تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’یوکرین نے امریکا کی طرف سے دیے گئے میزائلوں سے روس کی سرزمین پر حملے‘ کیوں کیے؟ ٹائم میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ امریکا یوکرین کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے گا۔
13- جنوری 2024ء میں ’آئیکون آف دی سیز‘ نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ 365 میٹر طویل اس مسافر بردار بحری جہاز میں وہ ہر آسائش موجود ہے جس کا سمندری سفر میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ واٹر پارک اور عالمی معیار کے ریسٹورنٹس سے آرستہ یہ کروز انجینئرنگ کا شاہکار ہے لیکن ماحولیاتی ماہرین نے کاربن کے استعمال کی وجہ سے اس پر تنقید کی ہے۔ اس بحری جہاز میں 20 ڈیک ہیں جبکہ اس میں زیادہ سے زیادہ 7 ہزار 600 مسافروں کی گنجائش موجود ہے۔ واضح رہے کہ یہ بحری جہاز رائل کیریبین گروپ کی ملکیت ہے۔
14- جنوری 2024ء میں ایلون مسک کی نیورا لنک نے دماغ پڑھنے والی ڈیوائس کی کامیاب امپلانٹ کی۔ یہ ڈیوائس نیورولوجیکل مسائل میں مبتلا افراد کے لیے تیار کی گئی تھی جس کے شاندار نتائج سامنے آئے۔ پرائیویسی اور ممکنہ غلط استعمال پر ناقدین اپنے خدشات کا اظہار کررہے ہیں جبکہ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ طب کی دنیا میں انقلاب برپا کر دے گا بالخصوص اس کے ذریعے معذور افراد باآسانی معمول کی زندگی گزار سکیں گے۔
نیورا لنک کی کامیابی نے انسان اور مصنوعی ذہانت کے انضمام پر مباحثے کو جنم دیا ہے۔ کیا انسان ٹیکنالوجی کی مدد سے آگے بڑھیں گے؟ کیا ہمارے دماغ کی جگہ ڈیوائس رکھ دی جائے تو ہم ویسے ہی انسان رہیں گے جیسے پہلے تھے؟ ان سوالات پر زور و شور سے مباحثے جاری ہیں۔