ایک بزدل صدر کی گیدڑ بھپکی یا حقیقت ؟
ونزویلا کیا بنے گا امریکہ کے لئے دوسرا ویتنام؟ کیا فرق ہے عرب اور جنوبی امریکہ کے حکام میں ؟ عرب صحافی کا دھماکہ خیز تجزيہ
عبد الباری عطوان عرب دنیا کے بے حد معروف اور سینیئر تجزیہ نگار ہیں۔ لندن سے شائع ہونے والے اخبار " رای الیوم " میں ان کا ایک مقالہ کافی وائرل ہو رہا ہے۔
سحرنیوز/دنیا: عبدالباری عطوان لکھتے ہيں: امریکہ وینزویلا کو دھمکانے، اس پر حملہ کرنے اور وہاں کی حکومت تبدیل کرنے کے لیے اور شاید ہمسایہ کولمبیا پر بھی حملے کے لئے، دسیوں ہزار فوجیوں، 11 سے زیادہ اسپیڈ بوٹس، طیارہ بردار جہاز جیرالڈ فورڈ اور سینکڑوں ڈرون اور ایئر کرافٹ اکٹھا کر رہا ہے ۔ دعوی یہ ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ کو روکا جائے گا ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی فوج کی زمینی یلغار قریب ہے اور یہ کہ وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کے گنے چنے دن بچے ہیں ۔
ونزوئيلا کے سلسلے میں امریکہ جو کر رہا ہے وہ غنڈہ گردی اور بدمعاشی کی بدترین شکل ہے ۔ انتہا تو اس وقت ہوئی جب گزشتہ دنوں امریکی جنگی جہازوں نے وینزویلا کے ساحل پر ایک بڑے آئل ٹینکر پر قبضہ کر لیا ۔ یعنی مبینہ "امن پسند" اور "جنگوں کو ختم کرانے والے نوبل انعام کے خواہاں" امریکی صدر ٹرمپ نے وینزویلا کے اندر دہشت گردی کے لیے امریکہ کی اسپیشل فورسز کو گرین لائٹ دے دی۔

در اصل ٹرمپ دولت کے پجاری ہیں اور انہیں ایک نفسیاتی کامپلیکس بھی ہے ۔ وہ دوسروں کے تیل اور ان کی آمدنی اور ان کے قیمتی معادن پر قبضے کی بیماری میں بری طرح سے مبتلا ہیں ۔ ان کی اس نفسیاتی بیماری کا فی الحال سب سے بڑا نشانہ وینزویلا ہے کیونکہ اس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا تیل کا ذخیرہ (303.3 بلین بیرل) ہے اور یہ ملک امریکہ کی سرحدوں کے قریب بھی ہے۔
ٹرمپ نے صدارتی مہم کے دوران واضح طور پر کہا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں اور وائٹ ہاؤس پہنچتے ہيں تو وینزویلا کے تیل پر مفت میں قبضہ کرنے کی امید کرتے ہیں یعنی دن دہاڑے ہتھیاروں کی طاقت سے ڈکیتی۔
اگر ٹرمپ نے یہ جرم کیا اور زمین، سمندر اور ہوا سے وینزویلا پر حملہ کرنے کی اپنی دھمکیوں پر عمل کر دیا ، تو وہ خود کو ایسے محاذ میں پھنسا سکتے ہيں جس کے خوفناک سیاسی، انسانی اور مالی اخراجات برداشت کرنا ان کے لئے مشکل ہو گا اور امریکہ دوسرے ویتنام کے دلدل میں پھنس سکتا ہے، ہزاروں کیلو میٹر دور نہيں بلکہ یہ دلدل خود ان کے ملک میں تیار ہوگا۔
اس بحران کا انجام کیا ہوگا ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے مختلف جوابات دیئے جا سکتے ہيں کیونکہ یہ بحران ، ٹرمپ کے ریئل اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے خالص تجارتی شعور کے مالک مشیروں کے ورغلانے اور ٹرمپ کی احمقانہ سوچ کا نتیجہ ہے تاہم دو نظریات زیادہ گردش کر رہے ہيں۔

کچھ تجزیہ نگار، ٹرمپ کی اب تک کی کارکردگی کے پیش نظر یہ کہتے ہيں کہ وہ ایک بزدل صدر ہيں جن پر یہ کہاوت صادق آتی ہے کہ جو زیادہ گرجتا ہے وہ برستا نہيں۔ انہوں نے ماسکو پر بمباری، کینیڈا ، گرین لینڈ، پاناما نہر پر قبضے ، غزہ پر جہنم کے دروازے کھولنے ، حماس کو کچلنے، مشرق وسطی کی نئی تشکیل، ایران کو وجود سے مٹانے اور وہاں کے نظام کو تبدیل کرنے ، اس کی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی دھمکیاں دی تھیں ، لیکن وہ ان تمام دھمکیوں میں سے کسی ایک دھمکی پر بھی عمل نہيں کر پائے۔ سوائے یہ کہ انہوں نے ایران کی دوسرے درجے کی ایٹمی تنصیبات پر بمبار طیاروں سے بمباری کی جس کا جواب انہيں قطر میں امریکی چھاونی پر ایرانی ميزائلوں کی بارش سے مل گيا تھا ۔ یعنی ان کی دھمکیاں محض نفسیاتی جنگ ہیں جو اکثر اوقات نتیجہ خيز بھی نہیں ہوتیں اورجس کی ایک مثال یہ ہے کہ ٹرمپ نے یوکرین جنگ کے سلسلے میں روس کو جو تجویز پیش کی ہے اس میں یوکرین کے پانچویں حصے کو روس کے لئے چھوڑ دینے کی پیش کش کی ہے ۔
کچھ دوسرے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ اپنی ان دھمکیوں پر عمل کر سکتے ہيں یعنی وہ وینزویلا، اور شاید اس کے پڑوسی کولمبیا پر بھی حملہ کر سکتے ہيں کیونکہ دونوں ممالک نے امریکی تسلط کے خلاف کھلے عام بغاوت کی ہے اور اس کے اتحادی اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کر لئے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ یہ ملک چین، روس اور "برکس" جیسی تنظیموں سے رجوع کیا ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان ملکوں کے خلاف امریکہ کی کسی بھی جارحیت سے جنوبی امریکی ممالک اور عوام میں اتحاد مضبوط ہوگا اور ملکی سطح پر بھی ٹرمپ کی مخالفت میں اضافہ ہوگا بلکہ اگر جنگ طویل ہوئی تو ان کی حکومت کو بھی خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

یہ سچ ہے کہ وینزویلا کے صدر مادورو کے پاس دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں، لیکن وہ دنیا میں، اور خاص طور پر مشرق وسطی میں، تیل سے مالا مال عرب ملکوں کے حکمرانوں کی طرح نہیں ہیں، وہ ٹرمپ کی دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکیں گے، نہ رضامندی سے اقتدار چھوڑيں گے نہ کھربوں ڈالر کا نذرانہ ٹرمپ کو پیش کریں گے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ امریکی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مزاحمت کا راستہ اختیار کریں گے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ "اگر ضرورت ہوئی تو وینزویلا، شمالی امریکی سلطنت کے دانت توڑنے کے لیے تیار ہے۔"
اس کے علاوہ انہوں نے مزاحمتی دستوں کی تشکیل کے لئے رضاکارانہ رجسٹریشن کا بھی اعلان کیا ہے اور اب تک ونزوئيلا کے 4.3 ملین سے زیادہ رضاکار اپنا رجسٹریشن کرا چکے ہیں ۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کی خودمختاری اور عزت و حفاظت کے لئے اپنی جان دینے پر تیار ہیں۔
ہمیں فالو کریں:
Follow us: Facebook, X, instagram, tiktok whatsapp channel

جنوبی امریکہ کے حکام، عرب حکام کی طرح نہیں ہیں، ہم یہ بات بہت افسوس کے ساتھ کہہ رہے ہیں اور شرمندگی بھی ہے کہ ہمارے عرب حکام کیوں ایسے ہیں ؟ جنوبی امریکہ کے لوگوں کی قیادت برازیل کے لولا ڈی سلوا جیسے صدور کر رہے ہیں، جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ جوتے پالش کرنے والے تھے، اور بچپن میں ان کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا، اور وہ فٹ بال میچ دیکھنے کے لیے پڑوسیوں کے گھر جاتے تھے۔ وہ سینہ تان کر امریکی غنڈہ گردی کے سامنے کھڑے ہوتے ، امریکی پالیسیوں کو چیلنج کرتے اور دو دو بار اپنے عوام کی بھرپور حمایت سے اقتدار میں آتے ہیں۔
ٹرمپ کا امریکہ اور وائٹ ہاؤس صہیونی لابی اور تل ابیب کے تسلط میں ہے اور اب وہ وینزویلا میں ایک خطرناک اور شرمناک تاریخی امتحان سے گزرنے والا ہے۔ اب امریکہ حملہ کرے یا پيچھے ہٹے دونوں صورتوں میں ذلت اس کا مقدر ہے۔
عشروں سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا دم بھرنے والے امریکہ کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی و قتل عام کی خو سے نقاب ونزوئیلا بلکہ جنوبی امریکا میں پوری طرح سے اترنے والا ہے کیونکہ جھوٹ کی عمر چھوٹی ہوتی ہے۔
(رای الیوم سے ماخوذ )