رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ذریعے امریکن یونیورسٹیوں کے طلباء کے نام لکھے جانے والے خط میں وہ کون سے نقاط ہیں کہ جن کے بارے بات کیا جانا ضروری ہے
آستان قدس رضوی کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے تعاون سے ’’امریکن یونیورسٹیوں کے طلبا کےنام رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خط پر ردّ عمل‘‘ کے عنوان سے اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔
سحرنیوز/ ایران: آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ اجلاس کے آغاز میں آستان قدس رضوی کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے شعبہ انقلاب اسٹڈیزاور جدید اسلامی تہذیب کے محقق نےرہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے امریکن یونیورسٹیوں کے طلباء کے نام لکھے جانے والے خط کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکن یونیورسٹیوں میں رواں سال کے اپریل سے ہی غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کی نسل کشی کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔
جناب ڈاکٹر علی جان اسکندری نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی نسل کشی کے خلاف نہ فقط پچاس سے زائد امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے بلکہ ان مظاہروں کا دائرہ دیگرمغربی ممالک جیسے کینیڈا،فرانس،اٹلی،انگلینڈ اور آسٹریلیا تک پھیل گیا۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کو نوجوان نسل سے متعلق جو شناخت ہے اس کو مدّ نظر رکھتے ہوئے انہوں نے مئی2024 میں اپنا دوسرا خط امریکہ میں فلسطینیوں کے حامی طلباء کو لکھا جس میں اہم مطالب بیان فرمائے۔
انھوں نے خط لکھنے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ در حقیقت نوجوانوں کا ضمیر زندہ ہوتا ہے اور ان کا ذہن ایکٹیو اورمتجسس ہوتا ہے اور وہ انصاف کی تلاش میں رہتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے اس خط میں لکھا کہ "میں یہ خط ان نوجوانوں کے نام لکھ رہا ہوں جن کا زندہ ضمیر انہیں غزہ کے مظلوم بچوں اور خواتین کے دفاع کے لئے اکساتا ہے۔"
ڈاکٹر علی جان اسکندری نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس خط میں دو درخواستیں کی ہیں پہلی یہ کہ اسلام کے حقیقی چہرے کی تخریب کرنے والے پس پردہ محرکات کا مطالعہ کریں، دوسری یہ کہ گمراہ کرنے کے لئے بہت زیادہ اقدامات انجام دیئے گئے ہیں ان سے بچنے کے لئے یا براہ راست اسلام سے متعلق معلومات حاصل کریں یا پھر درجہ اول کے ماخذ اورمنابع سے معلومات حاصل کریں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خط کے اہم نکات شام میں تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی مشیر نے بھی رہبر معظم انقلاب کے اس خط پر روشنی ڈالی اورپیغام بھیجنے کے مختلف طریقوں،خط لکھنے کی تاریخ،بنیادی وجہ ،زمان و مکان،خط کے اصلی مخاطب اور ثانوی مخاطب، خط کے قلیل مدتی، درمیانی مدت اور طویل مدتی پیغامات اورخط کے پیغامات کی تاثیر کو بڑھانے کے طریقوں پر تفصیل سے گفتگو کی۔
حجت الاسلام والمسلمین سید حامد ملکوتی تبار نے کہا کہ اس طرح کے مکاتبات پیغمبر اسلامی(ص) اور حضرت علی(ع) کے زمانے میں بھی تھے اور عصر حاضر میں بھی انجام دیئے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس خط لکھنے کی اصلی وجہ غزہ پٹی اور فلسطین کا مسئلہ اور امریکہ و غاصب صیہونی حکومت کی جانب سے غزہ کی بے دفاع عوام پر کئے جانے والے ظلم و ستم جانتے ہوئے کہا کہ اس خط کے اصلی مخاطب امریکن یونیورسٹیوں کے طلبا ،مغربی نوجوان،امریکی اور صیہونی حکمران اور فلسطین کی مظلوم عوام ہے۔
سید حامد ملکوتی تبار نے مزید یہ کہا کہ اس خط کے اہم پیغامات میں غزہ کی مظلوم عوام کی حمایت و ہمدردی اور یکجہتی،نیٹ ورکنگ کی ضرورت،غاصب حکومت کا زوال اورتاریخ کے صحیح رخ پر کھڑا ہونا وغیرہ شامل ہیں البتہ اس خط کے ایک ایک لفظ کی لوگوں کے لئے تشریح کی جانی چاہئے۔ آخر میں ان کا کہنا تھا کہ اس خط کو مزید مؤثر بنانے کے لئے اسے فلم یا ویڈیوکلپ کی صورت دی جائے۔