ایران سعودی عرب معاہدے پر دنیا کا مثبت ردعمل، صیہونی حکومت پر خوف طاری
ایران اور سعودی عرب کے مابین گزشتہ روز سفارتی تعلقات کی بحالی کو لے ہوئے معاہدے کا جہاں دنیا بھر نے خیرمقدم کیا ہے وہیں غاصب صیہونی حکومت پر خوف طاری ہو گیا ہے اور اُس نے اس معاہدے کو خطرناک قرار دیا ہے۔
سحر نیوز/ایران: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ایران اور سعودی عرب کے مابین طے شدہ معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے والے ممالک کی قدردانی کی۔ اینٹونیو گوتیرس نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین نیک ہمسایگی و ہمجواری پر مبنی تعلقات خلیج فارس کے علاقے کے امن و استحکام میں بڑا اہم اور کلیدی کردار رکھتے ہیں۔
چین کے وزیر خارجہ "چین گینگ" نے تہران ریاض معاہدے کو صلح و آشتی کی ایک کامیابی قرار دیا۔
پاکستان نے بھی ایران و سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے کو ایک اہم پیشرفت سے تعبیر کیا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ اُن کا ملک بڑی گرم جوشی کے ساتھ ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کا خیر مقدم کرتا ہے۔
لبنان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ عبد اللہ بو حبیب نے تہران و ریاض کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کو لے کر ہوئے معاہدے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سرگرمیوں کے آغاز اور سفارتخانوں کی بحالی سے مستقبل قریب میں تمام علاقائی ممالک کے لئے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے بھی تہران ریاض معاہدے کا خیرمقدم کیا اور کہا اگر ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اپنی قربت کے فطری راستے پر آگے بڑھتے ہیں تو اس سے قومی و علاقائی سطح پر نئے افق ابھر کر سامنے آئیں گے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یہ معاہدہ علاقے میں ایک عظیم تبدیلی اور علاقے اور لبنان کے لئے نئے افق کے کھلنے کی نوید سناتا ہے۔ انہوں نے تہران ریاض تعلقات کو علاقائی ممالک اور انکے اقوام کے حق میں قرار دیا۔
لبنانی شیعوں کی مجلس اعلائے اسلامی کے نائب سربراہ شیخ علی خطیب نے بھی تہران ریاض معاہدے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ معاہدہ اسلامی و عرب دنیا میں اتحاد و ہمدلی کا باعث بنے گا اور عالم اسلام و عرب کے عوام کے لئے مثبت نتائج کا حامل ہوگا۔
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے ایک بیان جاری کر کے تہران ریاض معاہدے کو امت اسلامیہ کی وحدت و ہمدلی اور علاقائی امن و استحکام کی راہ میں اہم قدم قرار دیا۔
ترکیہ کے وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے اپنے سعودی ہم منصب فیصل بن فرحان سے ٹیلیفون پر بات کی اور انقرہ کی جانب سے تہران ریاض معاہدے کے خیرمقدم سے انہیں آگاہ کیا۔
عمان کے وزیر خارجہ نے بھی تہران ریاض معاہدے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ عمانی وزیر خارجہ بدر السید البوسعیدی نے ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے ٹیلیفونک گفتگو میں اپنی اور حکومت کی جانب سے انہیں مبارکباد پیش کی۔
قطر کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبد الرحمٰن آل ثانی نے بھی ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں نئی تبدیلیوں پر مبارکباد پیش کی۔
یمن کی نیشنل سالویشن حکومت نے بھی تہران ریاض معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اُسے علاقائی امن و استحکام اور امت اسلامیہ کی امن و سلامتی کے احیا کا باعث قرار دیا۔ یمن کی تحریک انصار اللہ کے ترجمان محمد عبد السلام نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ علاقے کو، ممالک کے آپسی تعلقات کی بحالی کی ضرورت ہے اور اس کے ذریعے امت اسلامیہ بیگانہ طاقتوں منجملہ امریکہ اور صیہونی حکومتوں کی مداخلت کے باعث اپنی کھوئی ہوئی سلامتی کو دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیگانہ طاقتوں نے علاقائی ممالک کے اختلافات سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور ایران کا نام لے کر اُسے یمن پر چڑھائی جارحیت کے لئے استعمال کیا۔
بحرین کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کر کے چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ایران سعودی اور چین کے مشترکہ بیان کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ تہران ریاض معاہدہ سفارتی سرگرمیوں اور مذاکرات و گفتگو کے ذریعے علاقائی ممالک کے مابین اختلافات کے حل میں مثبت قدم ہوگا۔
اردن کی وزارت خارجہ نے بھی اپنے جاری کردہ بیان میں تہران ریاض معاہدے کا خیرمقدم کیا اور اس سلسلے میں عراق، عمان اور چین کی کوششوں کو سراہا۔
امریکہ نے جمعے کے روز طے پانے والے تہران ریاض معاہدے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران و سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کی خبروں سے آگاہ ہے۔ امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس نے جنگِ یمن میں خود کی شمولیت کے باوجود یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس جنگ کے خاتمے اور مشرقِ وسطیٰ (مغربی ایشیا) میں کشیدگی کم کرنے کے لئے ہر کوشش اور اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے۔
دوسری جانب جہاں ساری دنیا نے تہران ریاض معاہدے کا خیرمقدم اور اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے، وہیں غاصب صیہونی حکومت میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم نفتالی بنت نے اس معاہدے کو بڑی خطرناک تبدیلی قرار دیتے ہوئے اُسے ایران کی سیاسی کامیابی سے تعبیر کیا۔ نفتالی نے اس معاہدے کا ذمہ دار بنیامین نتنیاہو کی حکومت کو قرار دیا اور اُس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ تہران ریاض معاہدہ اس حکومت کی رسوا کن شکست ہے اور یہ اسرائیل کے اندرونی اختلافات کا نتیجہ ہے۔
صیہونی حکومت کے ایک اور سابق وزیر اعظم یائیر لاپید نے بھی ایران سعودی عرب معاہدے کو خارجہ پالیسی کے شعبے میں تل ابیب کی شکست قرار دیا۔
خیال رہے کہ ایران اور سعودی عرب نے عراق، عمان اور چین کی ثالثی میں سات سال کے بعد بیجنگ شہر میں اپنے سفارتی تعلقات کی بحالی کے ایک معاہدے پر دستخط کر دئے۔
اس معاہدے کے مطابق طے یہ پایا ہے کہ ایران و سعودی عرب کے وزرائے خارجہ آئندہ دو ماہ کے اندر اندر ایک دوسرے سے ملاقات کر کے اپنے اپنے سفیروں کی تعیناتی، سفارتخانوں کی بحالی اور ان سے جڑے دیگر مسائل کی زمین ہموار کر دیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب نے دو ہزار سولہ میں تہران میں اپنے سفارتخانے پر بعض افراد کے حملے کو وجہ بتا کے یکطرفہ طور پر ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے تھے۔